حیدرآباد یکم / اگست ( پی ٹی آئی / سیاست نیوز ) حکومت تلنگانہ نے اس ریاست میں 19 اگست کو جامع سماجی سروے منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ چیف منسٹر کے چندرا شیکھر راؤ نے ریونیو عہدیداروں کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس سروے سے تلنگانہ کے عوام کے موقف کے بارے میں حقیقی اور بالکل صحیح معلومات دستیاب ہوں گی ۔ انہوں نے تمام ملازمین پر زور دیا کہ و مکمل خلوص نیت اور ڈسپلین کے پابندی کے ساتھ عوام کے صحیح حقائق اور تفصیلات جمع کریں ۔ مسٹر چندرا شیکھر راؤ نے کہا کہ تلنگانہ میں فی الحال دستیاب ایک تخمینہ کے مطابق 84 لاکھ خاندان آباد ہیں اور ان تمام خاندانوں کا 19 اگست کو سروے کیا جائے گا ۔ چیف منسٹر کے دفتر سے جاری ایک اعلامیہ میں ان کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ تمام افراد سروے کے روز اپنے گھروں پر موجود رہیں اور تفصیلات درج کروائیں ۔ انہوں نے کہا کہ اس سروے کو اس لئے بھی غیر معمولی ترجیح دی جارہی ہے کیونکہ اکثر خاندان حکومت کے فلاحی پروگرام کا فائدہ اٹھانے سے خاصر ہیں ۔ مسٹر چندر شیکھر راؤ نے کہا کہ سروے کے روز تعطیل کا اعلان کیا جائے گا اور چار لاکھ ملازمین جن میں پولیس اور ٹیچرس بھی شامل رہیں گے ۔ سروے میں حصہ لیں گے ۔ سیاست نیوز کے مطابق چیف منسٹر تلنگانہ چندر شیکھر راؤ نے کہا کہ سرکاری اسکیمات کے فوائد حقیقی مستحقین تک پہنچانے اور ان پر عمل آوری میں بے قاعدگیوں کو روکنے کا حکومت نے تہیہ کرلیا ہے۔ ہر شعبہ میں ہونے والی بے قاعدگیوں کو روکنے کیلئے حکومت ایک مبسوط حکمت عملی تیار کرے گی۔ سابقہ حکومتوں کے دور میں جس طرح بڑے پیمانے پر بے قاعدگیاں انجام دی گئیں ان کا پتہ چلانے کیلئے تلنگانہ حکومت نے ایک جامع سروے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ساری ریاست میں صرف ایک دن میں یہ سروے مکمل کرلیا جائے گا۔ چیف منسٹر نے آج سروے سے متعلق اعلیٰ سطحی اجلاس میں کہا کہ صبح سے شام تک عہدیدار ہر گاؤں میں ہر خاندان کی حالت کا جائزہ لیں گے اور تمام تفصیلات کمپیوٹرائزڈ کرتے ہوئے متعلقہ عہدیداروں کو فراہم کی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ اس جامع سروے کی بنیاد پر حکومت فلاحی اسکیمات کے آغاز اور ان پر عمل آوری کے طریقہ کار طئے کرے گی۔ اس جامع سروے کیلئے ہر خاندان کی تفصیلات حکومت کے پاس موجود رہیں گی جس کی بنیاد پر فلاحی اسکیمات کا بجٹ طئے کیا جائے گا۔ چیف منسٹر نے کہا کہ حکومت چاہتی ہے کہ فلاحی اسکیمات میں بے قاعدگیوں کی روک تھام ہو اور سرکاری رقومات درمیانی افراد تک نہ پہنچے بلکہ حقیقی مستحقین کو اسکیمات کا راست طور پر فائدہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ منڈل کی سطح سے ایم آر او، ایم ڈی او سے لیکر ضلع کی سطح پر ضلع کلکٹرس اعداد و شمار کی پیشکشی میں غلطی کریں یا پھر بوگس اسنادات جاری کئے جائیں تو ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کی ترقی کیلئے عہدیداروں کو کسی قدر تکلیف برداشت کرتے ہوئے سنجیدگی کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔ چیف منسٹر نے کہا کہ سابق میں جو بھی سروے کئے گئے وہ حقائق سے بعید ہیں۔ ہر سروے مختلف انداز کے ہیں جس سے فلاحی اسکیمات کی رقومات کا بے جا استعمال ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مناسب سروے نہ ہونے کے سبب سرکاری اسکیمات میں بڑے پیمانے پر اسکام منظر عام پر آئے ہیں اور اسکیمات کے فوائد خاص طور پر غربت کے خاتمہ کا مقصد پورا نہیں ہوسکا۔ انہوں نے کہا کہ نوتشکیل شدہ ریاست میں عوام کو حکومت سے کئی توقعات ہیں اور حکومت چاہتی ہے کہ جامع سروے کے بعد فلاحی اسکیمات کو قطعیت دے۔ انہوں نے کہا کہ فیس بازادائیگی اسکیم کے تحت حکومت پر 4000کروڑ روپئے کا بوجھ عائد ہورہا ہے۔ انہوں نے مکانات کی تعمیر کے سلسلہ میں بھی بڑے پیمانے پر بے قاعدگیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اعداد و شمار کے مطابق 55لاکھ مکانات کی تعمیر کا دعویٰ کیا جارہا ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ امکنہ کی اسکیم میں کئی ہزار کروڑ روپئے کی بے قاعدگیاں ہوئی ہیں۔ چندر شیکھر راؤ نے کہا کہ غریب اور مستحق افراد کو وظائف کے علاوہ مکانات فراہم کئے جائیں گے اور راشن کارڈز اب صرف حقیقی مستحقین کو ہی حاصل ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ تلنگانہ میں 12لاکھ دلت خاندان بستے ہیں جن میں 3لاکھ دلت خاندان شہری علاقوں میں ہیں۔حکومت ہر بے گھر دلت خاندان کو زمین فراہم کرنے کے عہد پر قائم ہے۔ 15اگسٹ سے دلتوں میں اراضی کی تقسیم کا آغاز ہوگا۔انہوں نے کہا کہ دو برسوں میں کم از کم ایک لاکھ خاندانوں میں اراضی کی تقسیم کو یقینی بنایا جائے گا۔ اعلیٰ سطحی اجلاس میں ڈپٹی چیف منسٹر و ریونیو منسٹر محمد محمود علی کے علاوہ وزراء ای راجندر، کے ٹی راما راؤ، پوچارم سرینواس ریڈی، جگدیش ریڈی، پدما راؤ، این نرسمہا ریڈی اور دوسروں نے شرکت کی۔
’ کانگریس کی غلط حکمرانی فلاحی اسکیمات کی ناکامی کا سبب ‘
تلنگانہ کے چیف منسٹر کے سی آر نے کہا کہ آروگیہ شری ، غریب خاندانوں میں سفید راشن کارڈس کی تقسیم اور طلباء میں فیس ری امبرسمنٹ جیسی فلاحی اسکیمات کی ناکامی کی اصل وجہ گذشتہ 10 سال کے دوران آندھراپردیش پر حکومت کرنے والی کانگریس کی غلط حکمرانی ہے ۔ کے سی آر نے ماضی کی حکومت کی فلاحی اسکیمات کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ علاقہ تلنگانہ میں صرف 88 لاکھ خاندان بتائے گئے تھے اور اس کے برخلاف ایک کروڑ 70 لاکھ خاندانوں کیلئے راشن کارڈ جاری کئے گئے جن میں 91 لاکھ سفید راشن کارڈس تھے ۔ ایسا ہی مسئلہ غریبوں کو گھر کی فراہمی کی فلاحی اسکیم کا تھا ۔ جس کیلئے ماضی کی حکومت کی طرف سے پابندی سے رقومات منظور کی جارہی تھی لیکن حقیقت میں نہ کہیں کوئی گھر بنایا گیا تھا اور نہ ہی کوئی اس سے فائدہ اٹھایا تھا ۔ فیس ری امبرسمنٹ کا بھی ایسا ہی مسئلہ تھا جس میں کئی بوگس کالجس کو جن کے پاس آل انڈیا ٹیکنیکل ایجوکیشن کونسل کے رہنما خطوط کے مطابق کوئی انفراسٹرکچر ہی نہیں تھا لیکن ان کالجوں کو فیس ری امبرسمنٹ کے نام پر رقومات فراہم کی جارہی تھی ۔ کے سی آر نے کہا کہ ایسے کالجوں کا پتہ چلانا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔