یہ شاخِ نور جسے ظلمتوں نے سینچا ہے
ضمیر ارض میں اک زہر چھوڑ جائے گی
تلنگانہ میں بی جے پی
تلنگانہ پر نظر رکھنے والی بی جے پی نے بالآخر اعلان کیا ہے کہ آئندہ چار سال کے دوران پارٹی سب سے بڑی طاقت بن کر ابھرے گی ۔ تلنگانہ کے سیکولر عوام کے ذہنوں میں فرقہ پرستی کا زہر پھیلانے کی کوشش کے حصہ کے طور پر پارٹی کی سرکردہ قائدین نے حال ہی میں ریاست کا دورہ کیا ہے ۔ بی جے پی کو قومی سطح پر ملنے والی پذیرائی سے اقتدار اور اختیارات کا مزہ لگ چکا ہے وہ ملک کی تمام ریاستوں میں اپنی حکمرانی کے خواب دیکھ رہی ہے۔ جنوبی ہند کی نئی ریاست تلنگانہ اس کے لئے آسان نشانہ بن سکتی ہے کیونکہ یہاں سیاسی پارٹیوں کی داخلی کمزوریوں کی وجہ سے کئی قائدین پارٹیاں اور وفاداریاں تبدیل کرنے میں کوئی پس و پیش نہیں کررہے ہیں۔ صدر بی جے پی امیت شاہ کے دورہ حیدرآباد سے حوصلہ پاکر پارٹی کارکنوں نے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ آئندہ چند برسوں میں ان کی پارٹی ایک مضبوط گڑھ بنالے گی ۔ بی جے پی صدر نے پارٹی کی پالسیسی میں منفی سوچ ہونے کی تردید کی ہے ۔ پارٹی کی کور ٹیم نے ایک ایسی حکمت عملی تیار کی ہے جس کی مدد سے سماج کے ہر طبقہ کو پارٹی کی صف میں شامل کیا جائے گا۔ بی جے پی ایک مضبوط سیاسی طاقت اس وقت متصور ہوگی جب اس کو ملک کے ہر فرقہ کے رائے دہندوں کی تائید حاصل ہوگی ۔ چند غیر سیکولر رائے دہندوں کے ووٹوں سے یا پھر گمراہ کن مہم کے ذریعہ عوام کی بڑی تعداد کو گمراہ کر کے اقتدار حاصل کرنے کی سیاسی طاقت حاصل ہوجانے کا نشانہ مقرر کیا ہے۔ جنوبی ہند میں تلنگانہ کو اہم ریاست سمجھنے والی بی جے پی نے مرکزی پالیسیوں کے معاملے میں اس ریاست کو یکسر نظر انداز کیا ہے ۔ اگر بی جے پی سمجھتی ہے کہ وہ تلنگانہ میں اپنے قدم مضبوط کرنے میں کامیاب ہوگی تو اس کیلئے اسے سب سے پہلے ریاست کی تمام بنیادی ضرورتوں ، عوام کے مسائل ،بیروزگاری، فنڈس کی اجرائی وغیرہ میں غیر ہمدردانہ رویہ ترک کرنا ہوگا ۔ چیف منسٹر تلنگانہ چندر شیکھر راو کو دہلی میں وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کا موقع نہ دینا تلنگانہ عوام کی اہمیت کو نظر انداز کردینے کے مترادف ہے ۔ بی جے پی ایک قومی پارٹی کا موقف رکھتی ہے تو اسے علاقائی سطح پر امتیازات کا رویہ اختیار نہیں کرنا چاہئے۔ دہلی میں چیف منسٹر کے چندر شیکھر راو کو مایوس کر کے واپس کردیا گیا اور ان کے ساتھ کیا گیا سلوک اس شعر کے مترادف تھا کہ ’’امیر شہر نے کاغذ کی کشتیاں دے کر ۔ سمندروں کے سفر پر کیا روانہ مجھے‘‘ ۔ مرکزی حکومت کے پالیسی علاقائی پالیسی کا فقدان ہوتو اس حکومت کی پارٹی بی جے پی کو یہ توقع ترک کرنی چاہئے کہ وہ تلنگانہ میں خود کو مضبوط بنانے میں کامیاب ہوگی ۔ ٹی آر ایس کو بھاری اکثریت سے منتخب کرنے والے رائے دہندوں کا فیصلہ ہنوز اتنا کمزور نہیں ہوا ہے کہ وہ اپنا رُخ ایک امتیاز پسند پارٹی کی جانب کردیں گے ۔ تلنگانہ کے عوام کو پرامن ماحول کے ساتھ خوشحال و ترقی کی ضرورت ہے اس کیلئے بلند وعدوں اور وعدوں سے زیادہ عملی اقدامات کرنے ہوں گی ۔ تلنگانہ کے 4 کروڑ عوام کو ایک مضبوط معاشرہ بنانے کی کوشش کرنی کے بجائے پارٹی کو طاقتور کرنے کے بجائے پارٹی کو طاقتور کرنے کی فکر رکھنے والی بی جے پی بغاوت نے تلگو کی دو ریاستوں تلنگانہ اور آندھرا پردیش کو جنوبی ہند میں قدم رکھنے اپنے لئے باب الداخلہ متصور کیا ہے ۔ امیت شاہ نے تلگودیشم کو ناراض کرنے سے گریز کرتے ہوئے آندھرا پردیش میں ان اتحادی پارٹیوں کو کمزور کرنے کے اقدامات کا اشارہ دیا ہے اس طرح بی جے پی اور تلگودیشم کا اتحاد بھی سیاسی مفاد پرستی کے جھولے میں جھول کر ٹوٹ جائے گا ۔ ان دونوں کے اتحاد کا ثبوت جی ایچ ایم سی انتخابات کے دوران مل جائے گا ۔ تلنگانہ کے عوام کو بی جے پی کی توسیع پسندانہ پالیسی میں اپنے علاقائی مفادات پر آنچ آنے نہیں دینا چاہئے ۔ تلنگانہ کی حکمران پارٹی ٹی آر ایس کو فرقہ پرستوں کے سیاسی حلقوں میں گھسیٹنے اور امیت شاہ کی حکمت عملی کامیاب ہوئی اور تلنگانہ کے عوام کو ان کی ترقی کے حق سے محروم کر کے فرقہ وارانہ ایجنڈہ مسلط کردیا گیا تو یہ نئی ریاست کیلئے ایک بڑا المیہ ہوگا۔ بی جے پی قومی سطح پر کامیابی کے اثرات کو تلنگانہ پر بھی آزمانا چاہتی ہے۔ بی جے پی کو دہلی میں اروند کجریوال کی عام آدمی پارٹی سے سخت مقابلہ ہے۔ دہلی کی سیاست اور جنوبی ہند کی سیاست میں فرق محسوس کرتے ہوئے بی جے پی تلنگانہ میں بھی فرقہ وارانہ طاقتوں سے ہاتھ ملاتے ہوئے مسلم ووٹوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کرے گی۔ دہلی میں اروند کجریوال کو ناکام بنانے کے لئے بی جے پی تلنگانہ کی مقامی جماعت سے اگر خفیہ معاہدہ کرسکتی ہے تو دہلی کے مسلم ووٹ منقسم کرنے کی کوشش کرے گی۔ بی جے پی نے ہر علاقہ میں اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے ووٹوں کو تقسیم کرنے کا بہترین سیاسی گُر سیکھ لیا ہے۔ اسی گُر کو دہلی اور تلنگانہ میں استعمال کرنے کی کوشش کرے گی۔ اسی کوشش میں کچھ نام نہاد مسلم قائدین بی جے پی کا درپردہ ساتھ دیں گے۔ دونوں فرقوں کے فرقہ پرست ذہنوں کا گٹھ جوڑ سیکولر عوام کے لئے تشویشناک بات ہوگی۔