تلنگانہ میں بی جے پی کے استحکام پر ٹی آر ایس متفکر

ٹی آر ایس سے منتخب ارکان پارلیمنٹ کی بی جے پی میں شمولیت کی قیاس آرائیوں کا جائزہ

حیدرآباد۔26مئی (سیاست نیوز) ریاست تلنگانہ میں برسر اقتدار جماعت تلنگانہ راشٹر سمیتی اب بھی لوک سبھا انتخابات کے نتائج کے صدمہ سے ابھر نہیں پائی ہے اور اس بات کا جائزہ لیا جا رہاہے کہ ریاست تلنگانہ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے استحکام کے کیا نتائج برآمد ہوسکتے ہیں اور بھارتیہ جنتا پارٹی تلنگانہ میں پارٹی کو بنیادی طور پر مستحکم کرنے کیلئے کیا اقدامات کرے گی۔تلنگانہ راشٹر سمیتی نے 2014 عام انتخابات میں ریاست تلنگانہ کے 17میں 11 حلقہ جات لوک سبھا پر کامیابی حاصل کی تھی اور 2019 عام انتخابات میں پارٹی نے 16 نشستوں پر کامیابی کی حکمت عملی تیار کرنے کا دعوی کیا تھا لیکن جو صورتحال پید ا ہوئی ا س کا مقابلہ تلنگانہ راشٹر سمیتی نہیں کر پائی ہے ۔ تلنگانہ راشٹر سمیتی ریاست میں 4نشستوں پر بھارتیہ جنتا پارٹی کی کامیابی کو مودی لہر قرار دینے کی کوشش کر رہی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ریاست میں اپوزیشن کے خاتمہ کے ذریعہ جو خلاء پیدا کیا گیا تھا اس خلاء کو پر کرنے کے لئے تلنگانہ عوام نے بھارتیہ جنتا پارٹی امیدواروں کو کامیاب بنایا ہے اور ساتھ ہی کانگریس کے بھی تین ارکان پارلیمان کو منتخب کرتے ہوئے تلنگانہ عوام نے ریاست میں برسراقتدار سیاسی جماعت کو یہ باور کردیا ہے کہ اگر تلنگانہ راشٹر سمیتی کی من مانیوں کاسلسلہ جاری رہا تو وہ صورتحال کو یکسر تبدیل بھی کر سکتے ہیں۔ ڈسمبر 2018 میں ہوئے عام انتخابات کے دوران تلنگانہ راشٹر سمیتی نے ریاست میں 90سے زائد نشستوں پر کامیابی کے حصول کے ذریعہ یہ دعوی کیا تھا کہ ریاست تلنگانہ کے عوام اب ٹی آر ایس کے علاوہ کسی اور سیاسی جماعت کو خاطر میں نہیں لائیں گے لیکن اندرو ن 6ماہ منعقد ہونے والے عام انتخابات میں لوک سبھا کی 8نشستوں پر تلنگانہ راشٹر سمیتی کو ناکامی سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ ریاست تلنگانہ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کا وجود موجود ہے اور بی جے پی کے نظریات کی تائیدکرنے اور انہیں ووٹ دینے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ تلنگاہ راشٹر سمیتی اور اس کی حلیف جماعت کی جانب سے کئے جانے والے دعوؤں کو مسترد کئے جانے کے بعد اب دونوں ہی سیاسی جماعتوں کے قائدین اس بات سے فکر مند ہیں کہ ریاست تلنگانہ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو استحکام حال ہوتا ہے تو اس کے کیا نتائج برآمد ہوں گے۔ تلنگانہ راشٹر سمیتی قائدین بالخصوص پارٹی کے سرکردہ قائدین اس بات سے فکر مند ہیں کہ تلنگانہ راشٹر سمیتی کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے 9 ارکان پارلیمان ٹی آر ایس میں باقی رہیں گے یا پھر بھارتیہ جنتا پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے کے سلسلہ میں غور کریں گے کیونکہ تلنگانہ راشٹرسمیتی سے منتخب ہونے والے ارکان پارلیمان برسراقتدار جماعت میں شمولیت اختیار حاصل کرسکتے ہیں اور ایک منتخبہ رکن پارلیمنٹ کا کہناہے کہ بی جے پی کو ضرورت نہیں ہے یہ بات صحیح ہے لیکن اگر وہ بھارتیہ جنتا پارٹی میں شامل ہوتے ہیں تو ان کے اپنے حلقہ کی ترقی کو یقینی بنا سکتے ہیں اسی لئے اس بات پر غورکرنے میں انہیں کوئی برائی نظر نہیں آتی۔تلنگانہ میں 8 لوک سبھا نشستوں پر تلنگانہ راشٹر سمیتی کو شکست کا مطلب یہ ہے کہ تلنگانہ اسمبلی کی 56نشستوںپر ٹی آر ایس کو نقصان کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور دو اہم نشستوں پر ٹی آر ایس کی شکست سربراہ تلنگانہ راشٹر سمیتی مسٹر کے چندر شیکھر راؤ کیلئے انتہائی تکلیف کا سبب بنی ہوئی ہیں جن میں حلقہ نظام آباد سے دختر کے کویتا کی شکست اور حلقہ کریم نگر سے بی ونود کمار کی شکست شامل ہے۔