شب کی آغوش میں پوشیدہ اُجالے کا پیام
کس بے تاب تمنا کا اشارہ ہوگا
تلنگانہ میں برقی بحران
تلنگانہ میں برقی بحران نئی حکومت کو مشکل میں ڈال دے گا۔ ماضی اور حال کی ہر حکومت نالائقی ، ڈیموں کی تعمیر میں غفلت، برقی پراجکٹس کی تعمیر میں آندھرائی لابی کی یکطرفہ اقدامات نے آج تلنگانہ کو بحران سے دوچار کردیا ہے ۔ شہر حیدرآباد میں وقفہ وقفہ سے برقی کٹوتی کا اثر معیشت پر بھی پڑسکتا ہے۔ آئی ٹی شعبہ کو زبردست ترقی دینے کا منصوبہ بنانے والی ٹی آر ایس حکومت کو سب سے پہلے برقی بحران کا مسئلہ حل کرنا ہے۔ ریاست کی تقسیم کے بعد برقی سربراہی میں بے قاعدگیوں کا مسئلہ شدت اختیار کرگیا ہے معلنہ اور غیر معلنہ برقی کٹوتی کے بعد اب تو فنی سطح پر ناکامیوں کے حیلے حوالے سے برقی سربراہی میں مسلسل خلل پیدا ہورہا ہے ۔ ناقص کوئلہ کی سربراہی یا ناکافی کوئلہ کی وجہ سے برقی پلانٹس میںمطلوبہ برقی کی تیاری ممکن نہیںہوسکی ۔ درحقیقت آندھرا اور تلنگانہ علاقوں میں گذشتہ دو سال سے شدید برقی بحران سے گذرنا پڑرہا ہے۔ ریاست کے برقی پلانٹس کو عصری بنانے کی ضرورت پر زور دیئے جانے کی جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ مرکزی وزارت برقی کے مطابق تھرمل برقی پلانٹس کی کارکردگی کی سادہ زندگی 25 سال ہوتی ہے جبکہ ریاست میں کام کرنے والے تھرمل برقی پلانٹس 32 تا 45 سال پرانے ہیں۔ ان پلانٹس کا حد سے زیادہ استعمال بھی برقی شٹ ڈاون کی بڑی وجہ ہے ۔ صنعتی شعبوں کو برقی کی سربراہی میں خلل پیدا ہو تو صنعتی پیداوار پر اثر پڑے گا۔ اب تلنگانہ کے اندر نئی حکومت کو اپنے نئے منصوبوں ، انتخابی وعدوں کو بروئے کار لانے کیلئے برقی کی ضرورت ہوگی ۔ اس اہم مسئلہ پر فوری توجہ کی ضرورت ہے ۔ آئی ٹی شعبہ کیلئے بغیر خلل کی برقی سربراہی سے ہی پیداوار میں اضافہ کی امید کی جاسکتی ہے ۔ کوتہ گوڑم تھرمل پاور اسٹیشن اور وجئے واڑہ تھرمل پاور اسٹیشن سے تقریبا 200 میگا واٹ کی برقی عہدیدار متاثر ہونے سے دونوں ریاستوں تلنگانہ اور آندھراپردیش میں برقی بحران پیدا ہوا ہے ۔ دونوں ریاستوں کی نئی حکومتوں کو اس مسئلہ پر جنگی خطوط پر توجہ دے کر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ آندھرا پردیش کی نئی حکومت نے جائزہ لینے کے بعد اپنے پہلے کابینی اجلاس میں چیف منسٹر چندرا بابو نائیڈو نے آندھرا پردیش میں 24 گھنٹے برقی سربراہی کو یقینی بنانے کا اعلان کیا ہے ۔ اگر آندھرا کی حکومت برقی کو 24 گھنٹے سربراہ کرنے کی جانب ٹھوس قدم اٹھاتی ہے تو تلنگانہ میں بھی برقی بحران کو دور کرنے کیلئے یہاں کی حکومت کو منصوبہ جاتی اقدامات کرنے ہوں گے ۔تلنگانہ ریاست میں حکومت کو نئے تجربہ کرنے کا وقت نہیںہے لہذا اسے برقی پلانٹس کی موجودہ صلاحیتوں کو بہتر بنانے اور کوئلہ کی سربراہی کو موثر بنانے پر توجہ دیناہوگا ۔ تلنگانہ کی علحدگی کا سب سے بڑا فائدہ سیاسی پارٹیوں کو ہی ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔ تلنگانہ عوام کے مسائل میںمزید اضافہ ہوتا ہے تو ان کی معیشت میں بھی کوئی بہتری کی امید نہیںکی جاسکتی ۔ نئی ریاست میں عوام کو بروقت معیشت کی شرح نمو کا ہدف حاصل نہیںہوسکے گا تاہم اسکو نظر انداز کردیا جائے تو معیشت کو لاحق خطرہ برقرار رہے گا۔ صنعتی و تجارتی سرگرمیاں ماند پڑ جائیں تو سرمایہ کاری کو ہاتھ کھینچ لینے کا بہانہ ملے گا ۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راو سے تلنگانہ کے عوام نے جو توقعات وابستہ کئے ہیں اگر وہ پورے ہوتے دکھائی نہ دیں تو تلنگانہ کے حصول کیلئے ان کی 14 سالہ جدوجہد رائیگاں سمجھی جائے گی ۔ چیف منسٹر کو اس وقت کئی چیلنجس کا سامنا ہے ۔ سب سے اول ترین چیلنج پانی اور برقی ہے ۔ ٹی آر ایس قائدین بھی انہیں درپیش چیلنج کا اندازہ ہے ۔ ٹی آر ایس قائدین کا اعتراف ہے کہ برقی قلت کا مسئلہ سنگین ہے لہذا جنگی خطوط پر اس مسئلہ کو حل کرنے کے منصوبے تیار کئے جارہے ہیں۔ مئی میں انتخابی کامیابی کے فوری بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس میں کے چند شیکھر راو نے کہا تھا کہ برقی پیداوار میں اضافہ کرتا ان کی نئی حکومت کے ایجنڈہ میں سرفہرست ہوگا ۔ مگر ریاست کو برقی کے معاملہ میں مرکز کے رقم و کرم پر چھوڑ جائے تو مسئلہ کی یکسوئی تک کئی مسائل پیدا ہوں گے ۔ جب ریاست میں برقی ہی نہ ہوگی تو تلنگانہ کے نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کا وعدہ پورا نہ کرنے کا مسئلہ بھی اس نئی حکومت کو دیگر مسائل سے دوچار کرسکتا ہے نئی ریاست میں مینو فیکچرنگ اور اسمال اسکیل شعبوں پر توجہ دینے سے ہی روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے تلخ حقیقت یہ ہے کہ تلنگانہ کے اندر مینوفیکچرنگ اور اسمال اسکیل انڈسٹریز کو گذشتہ پانچ سال سے سنگین بحران کا سامنا ہے ۔ حیدرآباد کے اطراف و اکناف کی صنعتی یونٹیںخاص کر ایک تہائی اسٹیل یونٹس برقی قلت کی وجہ سے کام کرنا بند کردیتے ہیں۔ ایسے میں نئی اسکیمات تلنگانہ کی معیشت مزید کسی بڑے دھکے کو سنبھالنے کے متحمل نہیںہوسکتی آنے والے دنوں میں اگر عوام کی معیشت کو حکومت کی نااہلی اور عدم کارکردگی سے کوئی دھکہ پہونچے تو حکومت کی بقاء کو دھکہ پہونچ سکتا ہے ۔
افراط زر پر قابو پانے مساعی
نریندر مودی زیر قیادت این ڈی اے حکومت آنے کے بعد یہ دعوی کیا جارہا ہے کہ افراط زر کی شرح میںکمی آئی ہے ۔ ترکاریوں ،دالوں اور ڈیری پراڈکٹس کی قیمتیں گھٹ گئی ہیں۔ اپریل میں افراط زر کی شرح 8.59 فیصد تھی جو اب گھٹ کر 3 ماہ سے کم مئی میں 8.28 فیصد درج کی گئی ہے ۔ ماہ مئی کے دوران ترکاریوں کی قیمتوں میں اپریل میں 17.5%کے بر خلاف مئی میں 15.27 فیصد تک کمی آئی لیکن یہ عارضی گراوٹ ہے جبکہ دالوں ،دودھ وغیرہ کی قیمتیں چلر فروش کی مارکٹ میں اضافی قیمتوں پر ہی فروخت ہورہی ہیں۔ نریدنر مودی حکومت نے افراط زر پر قابو پانے کو اپنی اولین ترجیح میںشامل کیا ہے ۔ عوام میں مہنگائی کے بارے میں پائی جانے والی تشویش کو دور کرنے کا عہد کرتے ہوئے بی جے پی حکومت کو جنگی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہیں۔ پارلیمنٹ میںمودی کے معاشی منصوبہ کو پیش کرتے ہوئے صدر جمہوریہ پرنب مکرجی نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ غذائی اجناس اور دیگر اشیاء کی قیمتوں پر فوری طور پر قابو پایاجائے گا ۔ افراط زور پر قابو پانے کیلئے معاشی سطح پر بڑے پیمانے کے اصلاحات لانا ضروری ہے۔ بلا شبہ حکومت کی کوششوں سے مثبت اشارے مل رہے ہیں لیکن عوام کو اس کا فائدہ ہنوز نہیںہوا ہے ۔ وزیر فینانس بھی افراط زر پر قابو پانے کیلئے اصلاحات لانے سے متعلق ایک منصوبہ کو بہت جلد وزیر اعظم سے رجوع کریںگے ۔کسی بھی حکومت کیلئے افراط زر پر قابو پانا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ ملک میں گوداموں کی کمی،ترکاریوں کی سربراہی میں بے قاعدگیاں ہی قیمتوں میں کمی و پیشی کا باعث ہوتی ہیں ۔ بینک کی شرح سود اور آر بی آئی کے مالیاتی اقدامات کو موثر و موافق معیشت بنایا جائے تو قیمتوں میں کمی کی امید پیدا ہوسکتی ہے ۔ جولائی کے دوسرے ہفتہ سے شروع ہونے والے بجٹ سیشن میں وزیر فینانس کے تیار کردہ بجٹ کو بھی اہمیت حاصل ہوگی ۔ یہ بجٹ مودی کے معاشی منصبوں کا عکس ہوگا تو ہندوستان کا معاشی مستقبل بھی نئے حکومت کیلئے چیلنج سے کم نہیں ہوگا۔