اراضی سروے مکمل، 64000 ایکرکی نشاندہی، ریونیو ریکارڈ میں عدم شمولیت ،حکام خواب غفلت میں
حیدرآباد۔/26 مئی، ( سیاست نیوز) تلنگانہ میں اوقافی جائیدادوں اور اراضیات کے تحفظ کے سلسلہ میں حکومت اور وقف بورڈ کے دعوے بنیادی حقائق کے برخلاف ہیں۔حکومت نے اراضی سروے کے دوران جن اوقافی اراضیات کی نشاندہی کی آج تک وقف بورڈ نے اسے ریونیو ریکارڈ میں شامل کرنے کی مساعی نہیں کی اور نہ ہی پٹہ پاس بکس حاصل کئے گئے۔ حکومت کے فیصلہ کے مطابق اراضی کی نشاندہی کے بعد ریونیو ریکارڈ میں بحیثیت وقف درج کیا جانا ہے اس کے بعد متعلقہ ادارہ کے نام پر پٹہ دار پاس بک جاری کی جائے گی۔ حکومت نے سروے کا کام مکمل کرلیا اس کے علاوہ کسانوں کو پٹہ دار پاس بکس کی اجرائی کا پہلا مرحلہ مکمل ہوچکا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وقف بورڈ اور محکمہ اقلیتی بہبود کے عہدیداروں کو وقف اراضی کے تحفظ سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اراضی سروے کے پہلے مرحلہ میں بورڈ نے 35596 جائیدادوں کے تحت 77607 ایکر اراضی کا دعویٰ پیش کیا تھا۔ ریونیو حکام نے 22427 جائیدادوں کے تحت 43610 ایکر اراضی کی توثیق کی۔ اس کے علاوہ 818 ایسی جائیدادوں کی ریونیو حکام نے نشاندہی کی جن پر وقف بورڈ نے اپنا دعویٰ پیش نہیں کیا۔ ریونیو ریکارڈ کے مطابق 818 جائیدادیں وقف ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ وقف حکام نے ان 818 جائیدادوں سے متعلق ریکارڈ داخل کرتے ہوئے انہیں اپنی تحویل میں نہیں لیا۔ باقی 10987 اوقافی جائیدادوں کے دوسرے سروے کے دوران ریونیو حکام نے 64000 ایکر اراضی کی بحیثیت وقف نشاندہی کی ہے۔ حکومت کی جانب سے سکریٹری اقلیتی بہبود کو مکتوب روانہ کرتے ہوئے ان اراضیات کو وقف ریکارڈ میں شامل کرنے اور پٹہ دار پاس بک حاصل کرنے کی صلاح دی گئی۔ سکریٹری اقلیتی بہبود نے وقف بورڈ کو اس سلسلہ میں متوجہ کیا اور فوری کارروائی کی ہدایت دی۔ لیکن افسوس کہ آج تک اس سلسلہ میں کوئی پیشرفت نہیں کی گئی۔ وقف بورڈ نے سروے کے دوران تمام ضلع کلکٹرس کو گزٹ نوٹیفکیشن کے مطابق اراضیات کا ریکارڈ حوالے کردیا تھا لیکن سروے میں وقف عہدیدار موجود نہیں رہے۔ اب جبکہ ریونیو حکام نے 64 ہزار ایکر اراضی کو بحیثیت وقف تسلیم کرلیا ہے تو وقف بورڈ کی ذمہ داری ہے کہ ان اراضیات کو ریونیو ریکارڈ میں بحیثیت وقف درج کرائے۔ اس کے علاوہ اداروں کے نام پر جاری کئے جانے والے پٹہ دار پاس بکس کی اوریجنل کاپی وقف بورڈ اپنی تحویل میں رکھے اور متعلقہ ادارہ کو پٹہ دار پاس بک کی نقل حوالے کی جائے۔ اوقافی اراضیات کے تحفظ کیلئے ضروری ہے کہ پاس بک کے اوریجنل کاپیاں سکریٹریٹ میں سکریٹری اقلیتی بہبود کے تحت محفوظ کردی جائیں اور اس کی ڈیجیٹل کاپی وقف بورڈ میں رکھی جائے۔ اس طرح اراضیات کا تحفظ کیا جاسکتا ہے۔ وقف بورڈ میں اوریجنل پٹہ دار پاس بک کی موجودگی سے دھاندلیوں کا خطرہ برقرار رہتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ وقف بورڈ نے ابھی تک اپنی جائیدادیں ریونیو ریکارڈ میں شامل کرنے عہدیداروں سے ربط قائم نہیں کیا۔ سکریٹری اقلیتی بہبود نے تمام ضلع کلکٹرس کو مکتوب روانہ کرتے ہوئے پٹہ دار پاس بکس کی اجرائی کی جانب توجہ مبذول کرائی ہے۔ اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کیلئے وقف بورڈ کو خصوصی مہم چلانے کی ضرورت ہے اور ریونیو حکام سے بہتر تال میل کے ذریعہ جائیدادوں کو وقف ریکارڈ میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ جب تک ریونیو ریکارڈ میں جائیدادیں شامل نہیں ہوجاتی اور پٹہ دار پاس بکس کی اجرائی عمل میں نہیں آجاتی اس وقت جائیدادوں کو محفوظ تصور نہیں کیا جاسکتا۔ بتایا جاتا ہے کہ وقف بورڈ حکام کی لاپرواہی کے سبب ریونیو حکام نے ابھی تک اوقافی جائیدادوں کی انٹری نہیں کی ہے۔ ریونیوحکام نے جن اضافی 818 جائیدادوں کی نشاندہی کی ہے اگر اس کے تحت موجود اراضی کو شمار کیا جائے تو وقف بورڈ کے پاس 88 ہزار ایکر اراضی آجائے گی۔ محکمہ مال کے وزیر ڈپٹی چیف منسٹر محمد محمود علی ہیں اور وقف بورڈ کے حکام اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جائیدادوں کا تحفظ کرسکتے ہیں۔ حکومت کے مشیر برائے اقلیتی امور اور ڈائرکٹر اقلیتی بہبود کو اس جانب توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔ ڈائرکٹر اقلیتی بہبود جو ایک آئی پی ایس عہدیدار ہیں وہ وقف بورڈ کے چیف ایکزیکیٹو آفیسر کی زائد ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں۔ ایسے میں امید کی جارہی ہے کہ پولیس عہدیدار اوقافی جائیدادوں کے تحفظ میں خصوصی دلچسپی لیں گے۔