کے سی آر کی مرکزی حکومت سے قربت اور مقامی جماعت سے دوستی عوام کیلئے غور طلب
حیدرآباد۔20 ستمبر (سیاست نیوز) ریاست تلنگانہ میں سیاسی سرگرمیاں اور آپسی اتحاد اور محاذوں کی تشکیل کیلئے زور و شور سے کوششیں جاری ہیں۔ ہر جماعت اقتدار کی دعویدار ہے۔ اہم اپوزیشن عظیم اتحاد کو تشکیل دے رہا ہے جبکہ برسراقتدار جماعت بظاہر کسی سے اتحاد کرنا نہیں چاہتی لیکن وہ اندرون اتحاد عملاً تشکیل دے چکی ہے۔ دہلی کے مسلسل دوسرے اور دہلی والوں سے قربت کامیاب ثابت ہورہی ہے تو دوسری طرف گلی والوں سے گلے ملنا بھی دوستی کا رنگ دیکھا جاچکا ہے۔ دونوں آنکھ ظاہر کرنے والے برسراقتدار پارٹی کے صدر ان دنوں آنکھوں کی ٹھنڈک بنے ہوئے ہیں لیکن ان کی یہ ٹھنڈک عوام اور ریاست کے مفاد کے حق میں آنکھوں کا سکون نہیں بلکہ آنکھوں کی سوزش ثابت ہورہی ہے۔ فرقہ پرست جماعتیں ہونے کی شناخت و الزامات کا سامنا کرنے والی دو جماعتوں کے ساتھ راز دارانہ معاہدے اور تعلقات کہیں ان کے خفیہ مشن کی تکمیل کا اشارہ تو نہیں چونکہ قومی جماعت کا درجہ رکھنے والی ایک آنکھ نے بھی اسمبلی مقابلہ کیلئے دو ہندسی عدد سے تجاوز نہ کرنے کا ارادہ کرلیا ہے جبکہ چھوٹی جماعت جو دوسری آنکھ کا درجہ رکھتی ہے، اب کیا یہ بھی دو ہندسی مقابلہ کرے گی۔ چونکہ شمالی ہند کی ریاستوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والی جماعت کیا اب تلنگانہ کے سیاسی میدان میں اپنا اثر دکھائے گی یا پھر بڑے اتحاد کے ساتھ ہاں میں ہاں ملانے والے چھوٹے آقا کے شارے سے یہ کام کرے گی۔ کیا شمالی ہند کی ریاستوں اترپردیش، بہار اور دوسری جانب مہاراشٹرا میں مقابلہ کے بعد جماعت کی نظریں تلنگانہ کے دیگر حلقوں پر ہے۔ چونکہ اس ریاست سے اپنے وجود کو برقرار رکھنے اور شناخت قائم کرنے والی جماعت کی پالیسی کیا ہوگی۔ سیاسی مبصرین کے مطابق ریاست میں اپوزیشن جماعتوں کا ایک محاذ تقریباً یقینی ہوگیا ہے۔ وہ کسی بھی حال برسراقتدار جماعت کو اقتدار سے دور کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ برسراقتدار جماعت کے صدر کی ملک کے صدر مقام سے قربت اور ایسے میں ریاست کے صدر مقام سے ان کی محبت ہر حال میں دونوں ایک ہی کوششیں سمجھی جائیں گی کہ آیا ریاست کے صدر مقام کی سیاسی طاقت کی مدد خواہ وہ ریاست کی برسراقتدار پارٹی کے صدر ہی کیوں تھے ، وہ بالراست دہلی کی مدد تصور کی جائے گی۔ (سلسلہ صفحہ 8پر)