سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ
دو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو
تلنگانہ عوام کی تاریخی فتح
تلنگانہ کے تعلق سے عام تاثر کو تقویت مل گئی اور علاقہ کے عوام کا دیرینہ مسئلہ حل ہوگیا۔ لوک سبھا میں تلنگانہ بل کی ندائی ووٹ سے منظوری کے بعد اس تحریک سے وابستہ ہر فرد نے اپنی جدوجہد کو بام عروج پر لے جاکر کامیابی حاصل کرلی ہے۔ تلنگانہ کے قیام کیلئے جن افراد، تنظیموں، قائدین اور نوجوانوں نے مساعی کی، قربانیاں دیں، اپنے چین و سکون کا خیال نہیں کیا۔ ان کی قربانیاں یقیناً تلنگانہ میں عوام کیلئے ثمرآور ہوں گی۔ تلنگانہ کو روکنے کیلئے ہر ممکنہ کوشش کی گئی۔ ناپسندیدہ عوامل کے ذریعہ جمہوری اداروں کے تقدس کو پامال کیا گیا۔ حکمراں طبقہ کے سیما آندھرا قائدین کی جدوجہد عوام کی بہبود و فکر سے زیادہ ان کی اپنی بقاء میں مضمر تھی۔ اس کے برعکس تلنگانہ میں سیاسی، سماجی، شعبوں سے وابستہ افراد کی جدوجہد خالص تلنگانہ عوام کی محرومیوں، ناانصافیوں اور پسماندگی کے خلاف کوششوں کا حصہ تھی۔ گذشتہ 50 سال کے دوران تلنگانہ کے قیام کیلئے حکمراں طاقتوں نے صرف وعدے اور بہانے کئے تھے۔ سابق تحریکوں کا گلہ گھونٹنے کیلئے سیاسی طاقت، لالچ اور خوف کا بے دریغ استعمال کیا گیا تھا جس کے نتیجہ میں تحریک سے وابستہ بعض افراد لالچ اور طاقت کا شکار ہوئے تھے۔ حالیہ دنوں میں تلنگانہ تحریک کو حتمی شکل دینے کا عزم کرنے والوں نے اقتدار، دولت، منصب کا کوئی لالچ نہیں دکھایا کیونکہ اس تحریک سے اب عوام کا جذبہ وابستہ ہوگیا تھا۔ خاص کر نوجوانوں کی قیمتی جانوں کی قربانی نے تحریک کو زندہ جاویداں بنا دیا۔ 15 ویں لوک سبھا کا آخری سیشن تاریخی نوعیت کا حامل رہا ۔ سرمائی سیشن کو مخالف تلنگانہ قائدین نے ناکام بنانے کی کوشش کی تھی لیکن مرکزی حکومت نے تلنگانہ بل کی پیشکشی اور منظوری کو یقینی بنانے کا عزم کرلیا تھا اس لئے پارلیمنٹ میں شدید احتجاج اور رکاوٹوں کے باوجود بل کو منظور کروا لیا گیا۔ مرکزی وزیرداخلہ سشیل کمار شنڈے نے آندھراپردیش ری آرگنائزیشن بل 2014ء کو پیش کیا لیکن وزراء اور سیما آندھرا سے تعلق رکھنے والے ارکان نے ہمیشہ کی طرح ایوان کے وسط میں پہنچ کر احتجاج کیا اور آندھراپردیش کی تقسیم کو روکنے کی کوشش کی۔ ان کا یہ احتجاج بے مطلب اور بے مقصد ثابت ہوا کیونکہ اس احتجاج کو حقیقتاً سیما ۔
آندھرا کے عوام کی حمایت حاصل نہیں تھی۔ دونوں علاقہ کے عوام میں ایسی کوئی تحفظ ذہنی نہیں ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ارمانوں، احساسات کا گلہ گھونٹ دیں یہ تو ان قائدین کی چال اور کوشش تھی جن کے سیاسی مالی مفادات متاثر ہورہے تھے۔ تلنگانہ تحریک میں علاقہ کے مسلمانوں نے شروع سے اہم رول ادا کیا ہے۔ یہاں کے مسلمانوں کی پسماندگی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ تلنگانہ کے قیام کی تحریک سے وابستہ قائدین، پارٹیوں نے ہر لمحہ اور ہر موقع یہ واضح کردیا ہیکہ انہیں احساس ہیکہ تلنگانہ میں دیگر شہریوں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے ساتھ بھی ناانصافی ہورہی ہے۔ تلنگانہ تحریک کو بعض طاقتوںنے دو علاقوں کے عوام کے درمیان تصادم کا مسئلہ بنا کر پیش کیا تھا۔ بظاہر حکمراں پارٹی اور تحریک تلنگانہ ہی فریق تھے اور اس میں ایک فریق تحریک تلنگانہ کو ہی کامیابی ملی۔ بنیادی طور پر حکمراں پارٹی نے اپنے اردگرد ایسے کرداروں کو فروغ دیا تھا جو تلنگانہ تحریک کو روکنے کی کوشش کررہے تھے۔ بعدازاں اسے بھی احساس ہوا کہ اگر اس نے ان کرداروں کو کھلی چھوٹ دیدی تھی اس کی سیاسی ساکھ پر اثر پڑے گا۔ تلنگانہ میں ٹی آر ایس کو بادشاہ گر نہیں بلکہ بادشاہ کا رول ادا کرنے کا موقع ملتا ہے تو اس میں قومی پارٹی کانگریس کو اپنے سیاسی چالیں دہرانے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔
حسب سابق اگر ٹی آر ایس اپنے وعدہ پر عمل کرتی ہے تو تلنگانہ میں قیام حکومت اور عوام کو ایک گڈ گورننس فراہم کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔ نئی ریاست کے قیام کے مقاصد کو نیک نیتی سے روبہ عمل لایا جانا چاہئے۔ اس کامیابی کے بعد حاصل ہونے والے دیگر ثمرات سے ہر فرد کو مستفید ہونے کا موقع ملنا ضروری ہے۔ بیروزگاری اصل مسئلہ ہے۔ نوجوانوں بالخصوص مسلم نوجوانوں کی حق تلفی کو فی الفور ختم کرنا ہوگا کیونکہ تلنگانہ کے قیام کی جدوجہد میں مسلمانوں کے رول کو اہل تلنگانہ فراموش نہیں کرسکتے۔ ریاست تلنگانہ کو ہر طبقہ کیلئے ترقی و خوشحالی کا مرکز بنایا جانا چاہئے۔ تلنگانہ کے قیام سے پہلے جن طاقتوں نے غیر ضروری فرقہ پرستی، نکسلائیٹس اور دہشت گردی کے اندیشے ظاہر کرکے خوف کا ماحول پیدا کیا تھا ان طاقتوں کے ناپاک ارادوں اور اندیشوں کو ناکام بناتے ہوئے پرامن بقائے باہم کا ماحول فروغ دینا ہر ایک کی ذمہ داری ہے۔