تلنگانہ ریاست کا سکریٹریٹ ٹی آر ایس بھون میں تبدیل

منتخب کانگریس قائدین کو دھمکانے کا الزام، محمد علی شبیر کی پریس کانفرنس
حیدرآباد /2 دسمبر (سیاست نیوز) قائد اپوزیشن تلنگانہ قانون ساز کونسل محمد علی شبیر نے سکریٹریٹ کو ٹی آر ایس بھون میں تبدیل کرنے کا ریاستی وزیر آئی ٹی و پنچایت راج کے ٹی آر پر الزام عائد کیا۔ آج سی ایل پی آفس اسمبلی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ سکریٹریٹ ریاست کے انتظامی امور کا مرکز ہے، جہاں ریاست کی ترقی اور فلاحی اسکیمات کی حکمت عملی تیار کرنے کے علاوہ تمام سرکاری کام انجام دیئے جاتے ہیں، تاہم اس مرکز میں سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے والے قائدین کا خیر مقدم کیا جا رہا ہے۔ ریاستی وزیر کا یہ اقدام قانون کی دھجی اڑانے کے مترادف ہے، جس کا کانگریس پارٹی سخت مذمت کرتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان کے والد و چیف منسٹر تلنگانہ کے سی آر بھی کیمپ آفس کو پارٹی سرگرمیوں میں تبدیل کرچکے ہیں۔ مقامی اداروں کے کونسل انتخابات میں کانگریس کی حکمت عملی کے تعلق سے پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ کانگریس پارٹی کسی جماعت سے سیاسی اتحاد نہیں کرے گی، تاہم ہائی کمان نے مفاہمت کا مسئلہ کوآرڈینیشن کمیٹی پر چھوڑ دیا ہے۔ کل گاندھی بھون میں کوآرڈینیشن کمیٹی کا اجلاس ہوگا، جس میں انتخابی جائزہ لیتے ہوئے مستقبل کی حکمت عملی تیار کی جائے گی۔ انھوں نے کہا کہ ٹی آر ایس ارکان اسمبلی کے علاوہ دیگر قائدین کی جانب سے کانگریس کے منتخب عوامی نمائندوں کو لالچ اور ڈرا دھمکاکر ٹی آر ایس میں شامل ہونے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ضلع کھمم کے ایک رکن اسمبلی نے کانگریس ایم پی ٹی سی رکن کو پارٹی میں شامل ہونے کی ترغیب دی ہے، جس کے فون کو ریکارڈ کرلیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ کانگریس کے لئے جیت ہار کوئی نئی بات نہیں ہے، تاہم ورنگل لوک سبھا کے ضمنی انتخاب میں بھاری اکثریت سے کامیابی کے بعد ٹی آر ایس تکبر کا شکار ہو گئی ہے۔ انھوں نے یاد دلایا کہ 2012ء کے ضمنی انتخابات میں جگن موہن ریڈی نے حلقہ لوک سبھا کڑپہ سے 5.50 لاکھ ووٹوں کی اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی، تاہم 2014ء کے عام انتخابات میں ان کا چمتکار ماند پڑگیا۔ ٹی آر ایس دھوکہ بازوں کی جماعت ہے، کابینہ میں شامل نصف وزراء مخالف تلنگانہ ہیں، جن کا تلنگانہ تحریک میں کوئی رول نہیں ہے۔ انھوں نے دو ماہ تاخیر سے 231 منڈلوں کو خشک سالی سے متاثرہ قرار دینے کا ریاستی حکومت پر الزام عائد کیا اور چیف منسٹر کی بجائے ڈپٹی چیف منسٹر کی قیادت میں وفد کو دہلی روانہ کرنے کی مخالفت کی۔ انھوں نے کل جماعتی وفد نہ لے جانے پر تنقید کرتے ہوئے مرکز سے ایک ہزار کروڑ روپئے حاصل کرنے کا مشورہ دیا۔