تلنگانہ راشٹریہ سمیتی اور تلنگانہ پولیٹیکل جے اے سی کے درمیان اختلافات

کے سی آر پر وعدوں سے انحراف کا الزام ، جے اے سی منشور کمیٹی اجلاس میں ہنگامہ

حیدرآباد ۔ 28 ۔ مارچ : ( سیاست نیوز ) : تلنگانہ راشٹریہ سمیتی کی جانب سے تشکیل تلنگانہ کے بعد سے اپنے وعدوں سے انحراف کے بعد سے ٹی آر ایس کی نہ صرف اقلیتی طبقہ میں سرزنش ہونے لگی ہے بلکہ تلنگانہ سیاسی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی جانب سے بھی صدر ٹی آر ایس مسٹر کے چندر شیکھر راؤ کے طرز عمل کو دبے الفاظ میں تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگا ہے ۔ تلنگانہ سیاسی جوائنٹ ایکشن کمیٹی جو کہ تحریک تلنگانہ میں کلیدی کردار ادا کرچکی ہے اسے اب ٹی آر ایس کی جانب سے نظر انداز کئے جانے کی اطلاعات موصول ہورہی ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی قائدین ٹی آر ایس کے اس طریقہ کار کی شدید مذمت کرنے لگے ہیں ۔ باوثوق ذرائع سے موصولہ اطلاعات کے بموجب صدر نشین تلنگانہ سیاسی جوائنٹ ایکشن کمیٹی پروفیسر کودنڈا رام اور صدر ٹی آر ایس مسٹر کے چندر شیکھر راؤ کے درمیان بھی سرد جنگ شروع ہوچکی ہے ۔جب کہ تحریک تلنگانہ کے دوران پروفیسر کودنڈا رام اور آنجہانی پروفیسر جئے شنکر کو ’ تلنگانہ گاندھی ‘ قرار دیا جاتا رہا لیکن اب ’ تلنگانہ گاندھی ‘ صدر ٹی آر ایس کو کہا جانے لگا ہے۔ ٹی آر ایس پارٹی ذرائع کے بموجب صدر ٹی آر ایس نے تشکیل تلنگانہ سے قبل کئے گئے اعلانات سے انحراف کا جو سلسلہ شروع کیا ہے اس سے تحریک تلنگانہ میں حصہ لینے والوں میں ناراضگی پیدا ہورہی ہے ۔ جس کا پارٹی قائدین بھی نوٹ لے رہے ہیں ۔

اسی طرح تلنگانہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی سے وابستہ پروفیسر کودنڈا رام ریڈی کے قریبی ذرائع نے بھی اعتراف کیا ہے کہ جے اے سی اور ٹی آر ایس کے درمیان کچھ مسائل پر اختلاف رائے کس نوعیت شدت اختیار کرتی جارہی ہے اور حالات بتدریج تبدیل ہورہے ہیں ۔ جے اے سی قائدین کا دعویٰ ہے کہ تلنگانہ راشٹریہ سمیتی کی جانب سے اختیار کی گئی اچانک تبدیلی اور تلنگانہ کاز کا خود کو چمپئن قرار دینے کی کوششوں کے بعد ہی یہ صورتحال پیدا ہوئی ہے جب کہ جے اے سی قائدین ٹی آر ایس بالخصوص صدر ٹی آر ایس کی جانب سے طبقاتی نفرت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کاز کے لیے متحد ہے اور حصول تلنگانہ کو یقینی بنایا ہے ۔ واضح رہے کہ مسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے تشکیل تلنگانہ کے فیصلہ سے قبل سماجی انصاف ، مسلم تحفظات ، سیاسی پسماندگی کا خاتمہ اور تلنگانہ تحریک دوران شہید ہونے والے افراد کے اہل خانہ کے علاوہ تلنگانہ جہدکاروں کو ایوان میں نمائندگی دینے کے اعلانات کئے تھے لیکن اب انتخابات کے قریب وہ ان تمام اعلانات سے منحرف ہوتے جارہے ہیں ۔ ٹی آر ایس پارٹی ذرائع نے بھی اس بات کی توثیق کی ہے کہ تلنگانہ راشٹرا سمیتی اور جوائنٹ ایکشن کمیٹی قائدین کے درمیان کچھ کشیدگی پیدا ہوچکی ہے لیکن اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ آج تلنگانہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے منشور کمیٹی اجلاس مے بھی اس مسئلہ پر ہنگامہ آرائی ہوئی اور تلنگانہ راشٹرا سمیتی کی جانب سے اختیار کردہ رویہ کی شدید مذمت کی گئی ۔ جوائنٹ ایکشن کمیٹی قائدین نے متعدد مرتبہ پروفیسر کودنڈا رام پر اس بات کے لیے دباؤ ڈالا کہ وہ تلنگانہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کو سیاسی جماعت بنائیں لیکن پروفیسر کودنڈا رام نے اس بات سے کبھی اتفاق نہیں کیا بلکہ صدر ٹی آر ایس کی جانب سے دئیے گئے تیقنات پر خاموش رہے۔ ذرائع کے بموجب ملازمین ، وکلاء ، طلبہ اور دیگر جوائنٹ ایکشن کمیٹی قائدین بھی صدر کے رویہ سے ناراض ہیں اور آئندہ کی حکمت عملی کی تیاری کا جائزہ لے رہے ہیں ۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ جے اے سی کے منشور کو تلنگانہ راشٹرا سمیتی کی جانب سے قبول نہ کرنے کی صورت میں جے اے سی تلنگانہ میں کانگریس یا تلگو دیشم و بی جے پی کی حمایت سے بھی گریز نہیں کرے گی چونکہ ٹی آر ایس تحریک میں حصہ لینے والوں کو نظر انداز کرنے کی پالیسی اختیار کئے ہوئے ہے جو ناقابل قبول ہے ۔۔