تلنگانہ حکومت کے بجٹ اعداد و شمار غیر حقیقی ۔ سی اے جی

بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا اور غلط اندراجات کئے گئے ۔ کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ
حیدرآباد 27 مارچ ( آئی این این ) کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل نے تلنگانہ حکومت کے بجٹ اعداد و شمار کو  بڑھا چڑھا کر پیش کئے گئے اور غیر حقیقی قرار دیا ہے ۔ مارچ 2016 کو ختم ہوئے سال کے تعلق سے ریاست کی معیشت پر اپنی رپورٹ میں سی اے جی نے کہا کہ ریاستی حکومت نے 238 کروڑ روپئے کا فاضل مالیہ ہونے کا جو دعوی کیا ہے وہ بڑھا چڑھا کر کیا گیا ہے ۔ یہ گرانٹس ان ایڈ کی غلط زمرہ بندی کی وجہ سے کیا جاسکا ہے ۔ یہ رقم 151 کروڑ کی ہے ۔ یہ رقم کیپیٹل ہیڈس اور کریڈٹ کے زمرہ میں شامل کی گئی ہے ۔ بجٹ میں 3,719 کروڑ روپئے کے قرض دکھائے گئے ہیں جو مالیہ رسائد پر مبنی ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اقتصادی خسارہ 3.23 فیصد دکھایا گیا ہے جو 3,719 کروڑ روپئے کے مماثل ہوتا ہے اور یہ رقم کم کرکے دکھاء یگئی ہے ۔ اس کا جی ایس ڈی پی پر اثر ہوسکتا تھا اور یہ تناسب 3.23 فیصد کی بجائے 3.87 فیصد ہوسکتا ہے ۔ کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق جملہ واجبات جی ایس ڈی پی کا 21.37 فیصد دکھایا گیا ہے جو 21.55 فیصد کی سیلنگ حد کے اندر ہے ۔ یہ حد 14 ویں فینانس کمیشن نے مقرر کی ہے ۔ اس میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ ریاستی حکومت نے مالیہ رسائد کے اعداد و شمار کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے ۔ رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ مالیہ وصولی کو 52.5 فیصد بتایا گیا ہے جس کی جملہ رقم 76,134 کروڑ روپئے ہوتی ہے جو یہ ریاست کے اپنے ٹیکس مالیہ سے آئی ہے جبکہ 19 فیصد مالیہ وصولی غیر محصول مالیہ وصولی سے ہوئی ہے ۔ مابقی رقم مرکزی حکومت کے محاصل میں ریاست کے حصے کے طور پر 16.2 فیصد اور مرکزی گرانٹس سے 12.3 فیصد آئی ہے ۔ حکومت نے خرچ ہونے سے رہ گئی رقم کو پی ڈی اکاؤنٹس سے وصولی میں درج کرنے کے احکام جاری کئے تھے جو اکاؤنٹنگ اوصولوں کے مغائر ہے ۔ حکومت نے 4,218 کروڑ روپئے تک مالیہ وصولی کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے ۔ سی اے جی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ تلنگانہ حکومت نے ترقیاتی اخراجات کو اقتصادی ترجیح ضرور دی ہے لیکن اس نے مختص کردہ فنڈز مقررہ مقاصد کیلئے استعمال کرنے کو یقینی نہیں بنایا ہے ۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ریاست کے قرض کی مدت کے مطابق اس کو اپنے جملہ قرض کا 53 فیصد حصہ آئندہ تین سال میں ادا کرنا ہے ۔