تلنگانہ تلگو دیشم

پھر بہار آئی وہی دشت نور دی ہوگی
پھر وہی پاؤں وہی خار مغیلاں ہوں گے
تلنگانہ تلگو دیشم
تلنگانہ تلگو دیشم سے ریونت ریڈی کے استعفیٰ کے بعد دیگر قائدین بھی پارٹی چھوڑنے کی تیاری کررہے ہیں ۔ تلنگانہ تلگو دیشم پارٹی کے اندر داخلی اختلافات میں شدت پیدا ہونے تک پارٹی قیادت نے خاموشی کیوں اختیار کی ۔ یہ الگ موضوع ہے مگر ریونت ریڈی نے تلگو دیشم کو ایک ایسے وقت خیرباد کہہ دیا جب کہ تلنگانہ میں حکمراں پارٹی کے خلاف تلگو دیشم کو موثر رول ادا کرنے کا موقع نہیں مل رہا تھا ۔ اپوزیشن کی حیثیت سے تلگو دیشم نے اگرچیکہ اب تک کوئی خاص موقف کا مظاہرہ نہیں کیا ۔ پارٹی کو مضبوط بنانے کی بھی صدر تلگو دیشم چندرا بابو نائیڈو نے دلچسپی نہیں دکھائی ۔ پارٹی کے تلنگانہ قائدین کو اپنے سیاسی مستقبل کی فکر لاحق تھی ۔ آنے والے اسمبلی انتخابات سے قبل انہیں کوئی نہ کوئی متبادل سیاسی طاقت کا سہارا لیناضروری ہو چلا تھا ۔ سیاست میں موقع پرستی کا رجحان نیا نہیں ہے ۔ ریونت ریڈی نے بھی اسی موقع پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تلنگانہ تلگو دیشم کو اپنا سیاسی مستقبل بنانے سے گریز کیا ہے ۔ ان کی کانگریس میں شمولیت یا سیاسی مستقبل کو مضبوط بنانے کی کوشش کے کیا نتائج برآمد ہوں گے یہ تو آئندہ 2019 اسمبلی انتخابات تک معلوم ہوجائے گا ۔ فی الحال تلنگانہ تلگو دیشم کی گرتی ساکھ کو بہتر بنانے کے لیے پارٹی قیادت کو فوری حرکت میں آنے کی ضرورت ہوگی ۔ ریونت ریڈی کے بعد ورنگل کے ہی ایک اور لیڈر نریندر ریڈی نے پارٹی چھوڑا ہے تو تلنگانہ میں پارٹی کی سیاسی کیفیت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ چندرا بابو نائیڈو کو اس صورتحال کا فوری نوٹ لینا ہوگا ۔ تلنگانہ ٹی ڈی پی صدر ایل رمنا کو اپنی پارٹی کی بری حالت پر توجہ دیتے ہوئے پارٹی کے اندر رکنیت سازی کو مضبوط بنانے پر دھیان دینا ہوگا ۔ بظاہر ایل رمنا کو تلنگانہ میں پارٹی کا موقف مضبوط نظر آرہا ہے وہ اسی خواب غفلت میں رہ کر تلگودیشم کو بنیادی سطح پر کمزور کریں گے ۔ ہوسکتا ہے کہ ریونت ریڈی اور ان کے ساتھ دیگر قائدین کی تلگو دیشم سے علحدگی کا پارٹی کے سیاسی امکانات پر کوئی خاص اثر نہ پڑے لیکن سیاسی موقع پرستوں کی وجہ سے تلگو دیشم کے دیگر کیڈرس پر منفی اثر پڑے گا اور انتخابات کے قریب پارٹی کو کیڈرس سے چوری کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا ۔ ایل رمنا نے یہ کس بنیاد پر دعویٰ کیا ہے کہ 2019 کے اسمبلی انتخابات کے بعد ان کی پارٹی تلنگانہ اسمبلی پر تلگو دیشم کا پرچم لہرائے گی اور بانی صدر این ٹی راما راؤ کے جذبہ کے احیاء کے لیے کام کرے گی ۔ اسی طرح کے بیانات ایک ایسے وقت دئیے جارہے ہیں جب پارٹی کو ایک ڈوبتی کشتی سے تشبہیہ دی جارہی ہے ۔ ریونت ریڈی کو کل تک تلگو دیشم کا اہم لیڈر اور حرکیاتی قائد کہا جاتا تھا ۔ انہیں پارٹی میں روکنے کی سطحی طور پر بھی کوشش نہیں کی گئی ۔ جب انہوں نے دہلی میں کانگریس ہائی کمان سے ملاقات کی جو اطلاعات تھی تو پارٹی کی قومی قیادت نے اسے نظر انداز کردیا ۔ ان کی اس شکایت پر بھی توجہ نہیں دی گئی کہ آندھرا پردیش تلگو دیشم کے بعض قائدین جن میں دو وزراء بھی شامل ہیں ۔ تلنگانہ میں ٹی آر ایس حکومت سے قربت پیدا کر کے بہت بڑے مالیاتی کنٹراکٹس حاصل کرچکے ہیں ۔ اس سے ریاست تلنگانہ میں تلگو دیشم پارٹی کا موقف مشتبہ ہوتا جارہا ہے ۔ کسی بھی پارٹی کے لیے اس کی منفرد شناخت اہمیت رکھتی ہے ۔ تلنگانہ میں اگر تلگو دیشم کو حکمران پارٹی کے مدمقابل مضبوط بنانا ہوتا تو پارٹی قیادت کو خاص توجہ دینے کی ضرورت تھی لیکن ماضی اور حال کی تلگو دیشم تلنگانہ کی کیفیت ایک معلق سیاسی نوعیت کی طرح دکھائی دے رہی تھی ۔ تلنگانہ تلگو دیشم پارٹی کے قائدین کے اندر یہ احساس پیدا ہورہا تھا کہ تلگو دیشم آنے والے عام انتخابات 2019 سے قبل ٹی آر ایس سے معاملت کرے گی ۔ صدر پارٹی چندرا بابو نائیڈو کو اس تعلق سے فوری وضاحت کے ساتھ پارٹی قائدین کی غلط فہمیوں کو دور کرنے میں پہل کرتے ہوئے نہیں دیکھا گیا ۔ تلنگانہ میں پارٹی کے اندر گروہ بندیوں کے ساتھ ساتھ موافق حکمراں ٹی آر ایس پارٹی لابی اور مخالف لابی نے مل کر پارٹی کے سرگرم قائدین کو اپنا متبادل راستہ تلاش کرنے کی راہ دکھائی ہے تو پارٹی کو چھوڑ کر جانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا ۔ گذشتہ 3 سال کے دوران تلگو دیشم کے 12 ارکان اسمبلی نے انحراف کر کے حکمراں ٹی آر ایس میں شمولیت اختیار کرلی تھی جس کے بعد سے ہی تلگو دیشم داخلی طور پر کمزور ہوتی گئی ۔ اگر پارٹی کی اصل قیادت ہی تلنگانہ میں پارٹی کے لیے کوئی کردار باقی رکھنا نہیں چاہتی تو پھر اس پر غور و تجزیہ کرنا فضول ثابت ہوتا ہے ۔۔