تلنگانہ بِل راجیہ سبھا میں پیش نہیں کیا جاسکا، ڈرامائی صورتحال

نئی دہلی ۔ 19 فبروری (سیاست ڈاٹ کام) تلنگانہ بل کی منظوری میں رکاوٹیں حائل ہونی شروع ہوگئی ہیں اور آج اسے راجیہ سبھا میں پیش نہیں کیا جاسکا۔ بی جے پی اور حکومت کے مابین اس اہم بل کے تعلق سے تعطل پیدا ہوگیا ہے اور بی جے پی نے دستوری ترمیم کے ساتھ ساتھ سیما۔ آندھرا کیلئے مجموعی طور پر ایک پیاکیج کے اعلان کا مطالبہ کیا ہے۔ وزیراعظم منموہن سنگھ اور کئی وزراء اور راجیہ سبھا میں قائد اپوزیشن ارون جیٹلی و ایم وینکیا نائیڈو کا ایک اجلاس بھی منعقد ہوا لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوسکا۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا یہ احساس ہیکہ بی جے پی نے سیما۔ آندھرا علاقہ میں انتخابی امکانات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اچانک اپنا موقف تبدیل کیا ہے۔ اس کے علاوہ اسے بی جے پی کو علاقہ میں حلیف جماعتوں جیسے تلگودیشم سے دوری کا اندیشہ ہے۔ کانگریس نے سیما۔ آندھرا عوام کے شدید جذبات کو پیش نظر رکھتے ہوئے انہیں پیاکیج کا اعلان نہیں کیا لیکن صدر کانگریس سونیا گاندھی نے حکومت سے خواہش کی ہیکہ وہ نئی ریاست آندھراپردیش کو آئندہ 5 سال کیلئے خصوصی موقف فراہم کرے تاکہ ترقیاتی ضروریات کی تکمیل ہوسکے۔

راجیہ سبھا میں آج زبردست ہنگامہ آرائی دیکھی گئی، جہاں تلگودیشم رکن سی ایم رمیش نے سکریٹری جنرل شمشیر کے شریف کو ڈھکیل دیا اور ان کے پاس سے پیپرس چھین لئے۔ اس کے علاوہ آج دن میں ایوان کی کارروائی کئی مرتبہ ملتوی کی گئی۔ شام میں جب یہ توقع تھی کہ آندھراپردیش تنظیم جدید بل کو ایوان میں پیش کیا جائے گا، عین اس وقت بنا کوئی وجہ بتائے ایوان کی کارروائی ملتوی کردی گئی۔ ذرائع کے مطابق بی جے پی نے آندھراپردیش کی تقسیم کیلئے دستوری ترمیم کا مطالبہ اس لئے کیا کیونکہ تلنگانہ بل کے ذریعہ لا اینڈ آرڈر کے اختیارات گورنر کو تفویض کئے گئے ہیں اور یہ دستوری گنجائش کے مغائر ہے۔ ارون جیٹلی نے کہا کہ موجودہ بل میں دونوں ریاستوں کیلئے مشترکہ دارالحکومت رکھا گیا ہے اور لا اینڈ آرڈر کی ذمہ داری گورنر کے سپرد کی گئی ہے جوکہ دستور کے ساتویں شیڈول میں درج ہے، یہ ریاستی امور کے تحت آتی ہے۔ بی جے پی اس تجویز کی اگرچہ مخالف نہیں ہے لیکن وہ چاہتی ہیکہ لا اینڈ آرڈر کے مسئلہ سے مؤثر طور پر نمٹا جائے۔

وزیر پارلیمانی امور کمل ناتھ نے اس بات کی توثیق کی ہیکہ بی جے پی نے دستوری ترمیم کا مسئلہ اٹھایا ہے لیکن حکومت بی جے پی کے مطالبہ کو قبول کرنے کے معاملہ میں پس و پیش کررہی ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتی کہ اس بل کی منظوری میں کوئی رکاوٹ حائل ہوجائے۔ اگر دستوری ترمیم کے مطالبہ کو منظور کیا جائے تو پھر اسے لوک سبھا سے دوبارہ رجوع کرنا ہوگا اور اس کیلئے اب وقت بہت کم رہ گیا ہے۔ کانگریس کا یہ احساس ہیکہ ایسی کسی کوشش کے نتیجہ میں بل کی منظوری غیر یقینی صورتحال سے بھی دوچار ہوسکتی ہے کیونکہ دستوری ترمیم بل کو منظور کرنے کیلئے ایوان میں نصف سے زائد ارکان کی تعداد موجود ہونی ضروری ہے اور دو تہائی ارکان کی تائید ناگزیر ہے۔ اس کے علاوہ یہ بل ندائی ووٹ سے منظور نہیں کیا جاسکتا جیسا کہ کل لوک سبھا میں ہنگامہ آرائی کے دوران منظور کیا گیا تھا۔ بی جے پی کو یہ خوف ہیکہ عام قانون کے تحت دستور میں تبدیلی لانے سے عدلیہ اسے مسترد کرسکتی ہے۔ راجیہ سبھا میں آج تلنگانہ بل کی پیشکشی کے موقع پر انتہائی سنسنی خیز اور ڈرامائی صورتحال دیکھی گئی جب تلگودیشم کے ایک رکن نے سکریٹری جنرل کے شریف کے ہاتھ سے بل سے متعلق دستاویزات چھین لینے کی کوشش کی۔

تلگودیشم کے سی ایم رمیش اور ان کے ساتھ وائی سوجنا چودھری تلنگانہ بل کی مخالفت کرتے ہوئے ایوان کے وسط میں پہنچ گئے جب مسئلہ تلنگانہ پر ایوان بالا کی نشست کا پہلے التواء کے بعد دوسری مرتبہ آغاز ہوا تھا۔ راجیہ سبھا کے نائب صدرنشین بی جے کورئین نے سکریٹری جنرل کے شریف کو آندھرپردیش کی تقسیم کے ذریعہ علحدہ تلنگانہ بل کی منظوری سے متعلق لوک سبھا کا مکتوب پڑھ کر سنانے کی ہدایت کی، جس کے ساتھ ہی رمیش نے ان کے ہاتھ سے کاغذات چھین لینے کی کوشش کی۔ کھینچ تان اور دھکم پیل کے دوران شریف کی عینک گر گئی اور رمیش نے ان کے ہاتھ سے کاغذات چھین لئے ۔ اس دوران پارلیمنٹ کا سیکوریٹی اسٹاف سکریٹری جنرل کی مدد کیلئے پہنچ گیا لیکن رمیش نے لوک سبھا میں تلنگانہ بل کی منظوری کے خلاف احتجاج اور نعرہ بازی کا سلسلہ جاری رکھا۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ غیردستوری انداز میں یہ بل منظور کیا گیا ہے۔ تلگودیشم رکن کے نازیبا رویہ پر برہم نائب صدرنشین کورئین نے کہا کہ ’’یہ انتہائی بدبختانہ واقعہ ہے۔ کرسی صدارت پر حملہ نہیں کیا جاسکتا۔ آپ اپنے ہاتھ دور ہی رکھیں۔ آپ جو کچھ بھی کررہے ہیں، انتہائی بدبختانہ ہے‘‘۔ اس ریمارک کے فوری بعد ایوان کی کارروائی دوپہر 2 بجے تک ملتوی کردی گئی۔ بعدازاں جیسے ہی اجلاس دوبارہ شروع ہوا کورئین نے اس واقعہ کا حوالہ دیا اور کہا کہ ’’رمیش کا رویہ انتہائی افسوسناک تھا جو ایوان کے کسی رکن کے شایان شان نہیں تھا‘‘۔ انہوں نے کہا کہ یہ حرکت مراعات شکنی کے ارتکاب کے مترادف ہے، جس پر رمیش بھی اپنی نشست سے اٹھ گئے اور کہا کہ ان کی یہ حرکت دانستہ یا ارادی نہیں تھی بلکہ جذباتی تھی، جس پر وہ معذرت خواہ ہیں۔ بعدازاں کورئین نے کہا کہ وہ اس مسئلہ کو کارروائی کیلئے رجوع کرنا چاہتے تھے لیکن اب یہ تجویز ترک کرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔ تلنگانہ بل کی مخالفت کرنے والے دو وزراء کو آج راجیہ سبھا میں نائب صدرنشین پی جے کورین کی برہمی کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ وہ (وزراء) لوک سبھا کے رکن ہے۔ چنانچہ اس ایوان میں انہیں شائستہ رویہ اختیار کرنا چاہئے یا پھر ایوان سے چلے جانا چاہئے۔ انہوں نے یہ ریمارک اس وقت کیا جب دو وزراء کے چرنجیوی اور کے ایس راؤ مسئلہ تلنگانہ پر ایوان بالا میں ہنگامہ آرائی کررہے تھے۔ اپوزیشن لیڈر ارون جیٹلی نے قواعد کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ دونوں وزراء لوک سبھا کے رکن ہیں۔ وہ اپنے احتجاج کے ذریعہ ایوان بالا میں گڑبڑ نہیں کرسکتے ہیں۔ قواعد کے مطابق وزراء بحث کا جواب دیتے ہیں لیکن گڑبڑ نہیں کرسکتے ۔