اگر ہو نیک نیت فیصلہ کرنا نہیں مشکل
نہ ہو گر تو یہ مہلت ہوگی بس تاخیر کا حربہ
تلنگانہ بل پر مہلت میں اضافہ
صدر جمہوریہ پرنب مکرجی نے تلنگانہ بل پر مباحث کیلئے آندھرا پردیش اسمبلی کو مزید ایک ہفتے کی مہلت دیدی ہے ۔ یہ بل 23 جنوری تک مرکز کو واپس کیا جانا تھا تاہم ابھی چونکہ اسمبلی میں مباحث چل رہے ہیں اور ریاستی حکومت کی جانب سے اس مہلت میں چار ہفتوں کی توسیع کی درخواست کی گئی تھی اس لئے صدر جمہوریہ نے چار کی بجائے ایک ہفتے کی مہلت دی ہے اور کہا ہے کہ یہ بل اب 30 جنوری تک مرکز ک واپس روانہ کردیا جانا چاہئے ۔ اس طرح صدر جمہوریہ نے جو فیصلہ کیا ہے اس کے نتیجہ میں تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے عمل کو طوالت کا شکار کرنے اور معرض التوا میں ڈالنے سیما آندھرا قائدین کی کوششیں کامیاب نہیں ہوسکی ہیں۔ سیما آندھرا کے قائدین چاہتے تھے کہ چار ہفتوں کی مہلت حاصل کی جائے اور پھر مزید مہلت کیلئے درخواست دی جائے تاہم صدر جمہوریہ نے محض ایک ہفتے کی مہلت دی اور عملا مزید مہلت کی طلبی کا امکان ہی ختم کردیا ہے ۔ صدر جمہوریہ ہند کی جانب سے مہلت میں ایک ہفتے کی توسیع کے بعد یہ بھی واضح کردیا گیا ہے کہ 30 جنوری تک یہ بل ریاستی اسمبلی کی رائے یا کسی رائے کے بغیر مرکز کو واپس بھیج دیا جانا چاہئے ۔ اس لئے اب یہ واضح ہوگیا ہے کہ ریاستی اسمبلی کی رائے کا اگر تعین نہ ہونے پائے تب بھی بل کو روکا نہیں جاسکتا اور اسے بہر صورت مرکز کو واپس کردیا جانا چاہئے ۔ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے عمل کو روکنے کیلئے جو منصوبہ بندی کی جا رہی تھی وہ اب تک موثر ثابت نہیں ہوسکی ہے اور یہ اشارے مزید تقویت پاچکے ہیں کہ مرکزی حکومت علیحدہ ریاست کی تشکیل کے عمل کو تیزی کے ساتھ مکمل کرنا چاہتی ہے ۔ ماہرین کی رائے کے بموجب ریاستی اسمبلی میں مباحث کے بعد جو بھی رائے بنتی ہے اس سے قطع نظر مرکزی حکومت پارلیمنٹ سے رجوع ہوسکتی ہے اور پارلیمنٹ قانون سازی کے عمل کو مکمل کرتے ہوئے علیحدہ ریاست کی تشکیل کو یقینی بناسکتی ہے ۔ ایک معنوں میں سیما آندھرا قائدین کی مخالفت اب تقریبا غیر اہم ہوکر رہ گئی ہے اور وہ شدت کے ساتھ اس مطالبہ کی مخالفت کرتے ہوئے کانگریس ہائی کمان سے اپنے دیگر کچھ مطالبات کو منوانے میں بھی کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ جہاں تک بل پر مباحث اور واپسی کیلئے مہلت میں اضافہ کا سوال ہے اس کی مثالیں پہلے بھی موجود ہیں جب مدھیہ پردیش کی تقسیم کے ذریعہ چھتیس گڑھ ریاست کی تشکیل عمل میں لائی گئی تھی اس وقت کے صدر جمہوریہ نے مدھیہ پردیش اسمبلی کو بل پر مباحث اور رائے کا تعین کرنے جو مہلت دی تھی اس میں اضافہ کیا تھا ۔
ایوان اسمبلی میں تلنگانہ بل پر جو مباحث چل رہے ہیں اس کی نوعیت یکسر مختلف ہے ۔ بل پر رائے دہی کی بجائے ارکان اسمبلی اپنے سیاسی مستقبل کو ذہن میں رکھتے ہوئے کام کر رہے ہیں۔ ان کا اظہار خیال کسی بھی اعتبار سے ایوان اسمبلی میں کیا جانے والا نہیں ہوسکتا اور ان کا مطمع نظر ایوان اسمبلی نہیں بلکہ اپنا سیاسی مستقبل ہے ۔ سیاسی قائدین سیما آندھرا علاقہ میں اپنے سیاسی مستقبل کو یقینی بنانے اور عوام کے درمیان جانے اس بل کی مخالفت میں اس حد تک آگے بڑھ گئے ہیں کہ بعض نے تو صدارتی اور دستوری احترام کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس کو مسترد کردینے کی مانگ بھی کی تھی ۔ ارکان اسمبلی نے اس بل کو دستور کے مخالف اور عوامی مفادات کے مغائر ہونے کا بھی الزام عائد کیا تھا ۔ سیما آندھرا کے قائدین نے بل کی نقولات کو نہ خود نذر آتش کیا بلکہ اے پی این جی اوز کی جانب سے بھی سڑکوں پر تک بھی اس بل کی نقولات کو نذر آتش کیا گیا اور اسے عوام دشمن قرار دیا گیا ۔ سیاسی مخالفت اپنی جگہ درست ہے اور ارکان اسمبلی کو اس بل پر اپنے خیالات کے اظہار کا حق حاصل ہے ۔ انہیں تاہم دستور کے دائرہ میں رہتے ہوئے اور ملک کے اعلی ترین عہدہ صدر جمہوریہ کے وقار اور احترام کا بہرصورت خیال رکھنا چاہئے ۔ ارکان اسمبلی دستور کے نام پر حلف لیتے ہیں اور دستور نے ہی انہیں ایوان اسمبلی میں پہونچنے کا راستہ دیا تھا ایسے میں دستور ی خلاف ورزیاں ارکان اسمبلی کیلئے مناسب نہیں کہیں جاسکتیں اور خود ان ارکان اسمبلی کو اس کا احساس بھی ہونا چاہئے ۔ تاہم سیما آندھرا قائدین نے اس احساس کو ترک کرتے ہوئے محض سیاسی مستقبل کو ذہن میں رکھا ہے ۔
اب جبکہ صدر جمہوریہ نے بل پر دی گئی مہلت میں ایک ہفتے کی توسیع کردی ہے اور یہ واضح کردیا ہے کہ 30 جنوری تک اسمبلی کی رائے یا رائے کے بغیر یہ بل مرکز کو واپس کردیا جانا چاہئے تو یہ ریاستی حکومت کی ذمہ داری بن گئی ہے کہ وہ اس بل کو مقررہ مہلت کے اندر مرکز کو واپس کردے ۔ ریاستی اسمبلی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس بل پر اپنی رائے کا اظہار کرے تاہم اسے دستوری ڈھانچہ کے تحت ہی کام کرنا ہوگا ۔ سیما آندھرا کے مخالف تلنگانہ ارکان اسمبلی اور خود چیف منسٹر مسٹر کرن کمار ریڈی کوچاہئے کہ وہ اس بل پر اب سنجیدگی کے ساتھ ایوان میں مباحث کروائیں اور اسمبلی کی جو بھی رائے بنتی ہے اس کے ساتھ یہ بل مقررہ مہلت کے اندر مرکز کواپس کردیں۔ ریاستی اسمبلی ‘ ارکان اسمبلی اور چیف منسٹر کو اپنی دستوری اور قانونی ذمہ داریوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ‘ سیاسی مفادات اور مستقبل کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ‘ اپنی رائے کے ساتھ پورے احترام کے ساتھ یہ بل مرکز ک واپس کردینا چاہئے ۔ ایسا کرتے ہوئے وہ دستور اور صدر جمہوریہ کے تئیں اپنی سنجیدگی کا ثبوت فراہم کرسکتے ہیں ۔