اسمبلی کی دو تہائی نشستوں پر کامیابی یقینی ، محمد محمود علی ڈپٹی چیف منسٹر کا بیان
حیدرآباد۔ 22 ڈسمبر (سیاست نیوز) ڈپٹی چیف منسٹر محمد محمود علی نے کہا کہ تلنگانہ اور بالخصوص گریٹر حیدرآباد کے حدود میں ٹی آر ایس کا موقف مستحکم ہے جس طرح گریٹر حیدرآباد کے انتخابات میں پارٹی نے 100 نشستوں پر کامیابی حاصل کی اسی طرح اسمبلی کی دوتہائی نشستوں پر ٹی آر ایس کو کامیابی حاصل ہوگی۔ جناب محمود علی نے کہا کہ عوام ٹی آر ایس حکومت کی کارکردگی اور فلاحی اقدامات سے متاثر ہیں لہٰذا 2019ء کے انتخابات میں پارٹی کی شاندار کامیابی یقینی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی کے موقف کا جائزہ لینے کے لیے وقتاً فوقتاً سروے منعقد کئے جاتے ہیں۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر رائو نے حال ہی میں پارٹی اجلاس میں سروے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ تلنگانہ میں پارٹی مستحکم ہے اور 2019ء میں دوبارہ کامیابی کی راہ میں کوئی طاقت رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ ڈپٹی چیف منسٹر نے کہا کہ ایسے ارکان اسمبلی جن کی کارکردگی توقع کے مطابق نہیں انہیں چیف منسٹر نے بہتر کارکردگی کی ہدایت دی ہے۔ مجموعی طور پر ریاست میں ٹی آر ایس کا موقف غیر معمولی طور پر مستحکم ہے اور عوام نے اپوزیشن جماعتوں کو مسترد کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام طبقات کے لیے کے سی آر حکومت نے فلاحی اسکیمات کا آغاز کیا ہے۔ اقلیتوں اور کمزور طبقات کی تعلیمی اور معاشی ترقی کے لیے جو قدم اٹھائے گئے اس کی مثال ملک کی کوئی اور ریاست پیش نہیں کرسکتی۔ انہوں نے کہا کہ 14 برسوں کی طویل جدوجہد کے بعد حاصل کردہ تلنگانہ کو چیف منسٹر نے فلاحی تلنگانہ میں تبدیل کردیا ہے۔ سماج کا کوئی طبقہ ایسا نہیں جو حکومت کی اسکیمات سے مستفید نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ گریٹر حیدرآباد اور اضلاع میں پارٹی 2014ء سے بہتر مظاہرے کے موقف میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ گریٹر حیدرآباد کے حدود میں گزشتہ تین برسوں میں عوام تیزی سے ٹی آر ایس سے وابستہ ہورہے ہیں۔ مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے قائدین اور کیڈر کی شمولیت کا سلسلہ جاری ہے۔ محمود علی نے کہا کہ تلگودیشم اور کانگریس پارٹی کے لیے اب تلنگانہ میں کوئی جگہ نہیں رہی۔ یہ وہ جماعتیں ہیں جنہوں نے خود کو تلنگانہ تحریک سے دور رکھا تھا۔ جو قائدین آج عوام سے ہمدردی کا اظہار کررہے ہیں وہ تلنگانہ تحریک کے دوران اپنے عہدے بچانے کے لیے سیمآندھرا قائدین کے ساتھ تھے۔ محمود علی نے کہا کہ اپوزیشن کے الزامات کا عوام پر کوئی اثر نہیں ہوگا اور 2019ء تو کیا 2024ء تک بھی کانگریس کے لیے کامیابی کے امکانات موہوم ہیں۔