تلنگانہ اور سیما آندھرا کے 140 حلقوں میں مسلمانوں کا مستحکم موقف

تمام جماعتوں کومسلم ووٹوں کی ضرورت، مسلمانوں کی مؤثرحکمت عملی نتائج پر اثرانداز ہوسکتی ہے

حیدرآباد۔/19اپریل، ( سیاست نیوز) اب جبکہ تلنگانہ میں عام انتخابات کی رائے دہی کیلئے صرف 10دن باقی رہ گئے ہیں، اقلیتی ووٹ کی اہمیت کے بارے میں اقلیتی رائے دہندوں میں شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ تلنگانہ اور سیما آندھرا کے تقریباً 140 اسمبلی حلقے ایسے ہیں جہاں اقلیتی رائے دہندے اپنے ووٹ کے ذریعہ نتیجہ پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ ان میں تلنگانہ میں 100اسمبلی حلقہ جات ہیں جہاں مسلم ووٹ فیصلہ کن موقف رکھتے ہیں۔2001 مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق 140اسمبلی حلقوں میں مسلم رائے دہندوں کی تعداد 10تا50ہزار کے درمیان ہے اور یہ حلقہ جات گریٹر حیدرآباد کے حدود میں آنے والے 24اسمبلی حلقوں کے علاوہ ہیں جہاں اقلیتی رائے دہندوں کی تعداد کافی زیادہ ہے۔آندھراپردیش کی تقسیم کے بعد تلنگانہ میں اقلیتوں کا فیصد 12.5 ہوچکا ہے جبکہ سیما آندھرا ریاست میں اقلیتوں کی آبادی 7فیصد رہے گی۔ ایک سروے کے مطابق تلنگانہ اور سیما آندھرا میں مسلم ووٹرس کے تناسب کے اعتبار سے اگر اقلیتی ووٹ متحدہ طور پر استعمال کئے جائیں تو وہ نتائج پر اثر انداز ہوں گے۔ اگر اقلیتیں کسی ایک جماعت کی تائید کا فیصلہ کرلیں تو دونوں ریاستوں میں اس جماعت کو اکثریت حاصل ہونا یقینی ہوگا۔ آندھرا پردیش میں اقلیتی ووٹ روایتی طور پر گزشتہ 10برسوں کے دوران کانگریس کے ساتھ تھے لیکن ریاست کی تقسیم کے بعد امکان ہے کہ اقلیتوں کے ووٹ پر کانگریس کے علاوہ ٹی آر ایس کی بھی حصہ داری شامل ہوجائے گی۔

سیما آندھرا میں تلگودیشم۔ بی جے پی اتحاد کے سبب اقلیتی ووٹوں کا رجحان وائی ایس آر کانگریس پارٹی کی طرف زیادہ دکھائی دے رہا ہے۔ اگرچہ وہاں کانگریس پارٹی بھی موجود ہے لیکن آندھرا پردیش کی تقسیم کے مسئلہ پر عوام میں پائی جانے والی ناراضگی کے سبب کانگریس اقلیتی ووٹ سے محروم ہوسکتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ آندھراپردیش کی تقسیم کے فیصلہ نے اقلیتوں کو وائی ایس آر کانگریس پارٹی کی طرف کردیا۔ اگر تلگودیشم نے بی جے پی سے اتحاد نہ کیا ہوتا تو وہ بھی اقلیتی ووٹ میں شراکت دار بن سکتی تھی۔ تلگودیشم کو بی جے پی سے مفاہمت کا خمیازہ تلنگانہ میں بھی اقلیتی ووٹ سے محرومی کی صورت میں بھگتنا پڑیگا۔ سروے کے مطابق وائی ایس آر دور حکومت میں اقلیتوں کو فراہم کردہ 4فیصد تحفظات اور دیگر فلاحی اسکیمات کے سبب اقلیتیں سیما آندھرا میں وائی ایس آر کانگریس کی تائید کرسکتی ہیں۔ اگرچہ تلنگانہ میں وائی ایس آر کانگریس پارٹی کا موقف کمزور ہے اور اس نے متحدہ آندھرا کی تائید کی تھی اس کے باوجود بعض علاقوں میں اقلیتوں کا جھکاؤ وائی ایس آر کانگریس پارٹی کی طرف دیکھا گیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اقلیتوں کی تائید کے سبب کیا وائی ایس آر کانگریس پارٹی تلنگانہ میں کچھ نشستیں حاصل کرپائے گی؟۔ تلنگانہ کے 12 اور آندھرا کے 20اسمبلی حلقوں میں اقلیتی رائے دہندوں کی تعداد 20تا30ہزار کے درمیان بتائی جاتی ہے جبکہ سیما آندھرا کے 13حلقے ایسے ہیں جہاں اقلیتیں 30تا 40ہزار ہیں۔ سروے کے مطابق دونوں ریاستوں میں 33اسمبلی حلقہ جات میں اقلیتی رائے دہندوں کی تعداد 15تا20ہزار اور 40 حلقوں میں 20ہزار سے زائد ہے۔ جن اسمبلی حلقہ جات میں 30ہزار سے زائد اقلیتی رائے دہندے موجود ہیں ان میں ورنگل ( ایسٹ )، کریم نگر، نظام آباد ( اربن)، ظہیرآباد، محبوب نگر، کرنول، مدن پلی، پنگنور، کملاپورم، پودوٹور، ادونی، کڑپہ، رائچوٹی، اننت پور، ہندو پور، کدری، الہ گڈہ، سری سیلم اور نندی کٹکور شامل ہیں۔ گریٹر حیدرآباد کے حدود میں سب سے زیادہ اقلیتی رائے دہندے اسمبلی حلقہ بہادر پورہ کے تحت آتے ہیں جن کی تعداد تقریباً 2لاکھ ہے۔ یاقوت پورہ، چندرائن گٹہ، ملک پیٹ، نامپلی، چارمینار اور کاروان اسمبلی حلقوں میں اقلیتی رائے دہندوں کی تعداد تقریباً دیڑھ لاکھ ہے۔ جوبلی ہلز، گوشہ محل، عنبرپیٹ اور خیریت آباد میں اقلیتی رائے دہندے 50ہزار سے زائد کی تعداد میں ہیں۔ اقلیتی رائے دہندوں کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے کانگریس، ٹی آر ایس اور بائیں بازو کی جماعتیں اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کیلئے اقلیتوں کو راغب کرنے کی جی جان سے کوشش کررہی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فیصلہ کن موقف میں ہونے کے باوجود اقلیتیں کس حد تک نتائج پر اثر انداز ہوپائیں گی اس کا انحصار اقلیتی رائے دہی پر ہے۔ اگر اقلیتی رائے دہی کا فیصد 60% سے زائد ہوتو وہ دونوں ریاستوں میں توازن قوت کے حامل ہوں گے اور حکومت کی تشکیل کا فیصلہ ان کے ووٹوں پر منحصر ہوگا۔