تلنگانہ اور آندھرا کے اہم انفراسٹرکچر پراجکٹ کے لیے بیرونی کمپنیوں پر انحصار

حیدرآباد ۔ 3 ۔ جون : ( نمائندہ خصوصی ) : ہندوستان کی آبادی سوا ارب کے ہندسے کو پار کرچکی ہے ملک میں کام کررہے زائد از 3345 انجینئرنگ کالجس میں 14,73,871 نشستیں ہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر سال ہمارے ملک میں تقریبا 15 لاکھ انجینئرس ان کالجس سے نکلتے ہیں ۔ لیکن ہمارے ملک کی مختلف ریاستوں میں قومی شاہراوں میٹرو ریل اور انفراسٹرکچر کے بے شمار پراجکٹس کے لیے امریکی ، جاپانی ، کوریائی ، سنگاپور اور مشرق وسطیٰ کی کمپنیوں اور ان کے ماہر انجینئرس کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں ۔ اس کی تازہ ترین مثال ریاست آندھرا پردیش کے دارالحکومت کی تعمیر میں سنگاپور اور جاپانی کمپنیوں سے مدد حاصل کرنے کی کوششیں ہیں ۔ اس طرح خصوصی سطح پر تعمیر کی جانے والے 100 اسمارٹ سٹیز کے پراجکٹ پر بھی جاپانی اور سنگاپور کی انفراسٹرکچر کمپنیوں سے تعاون حاصل کرنے کے لیے کئے جارہے اقدامات بھی ہمارے ذہنوں میں یہ سوالات پیدا کرتے ہیں کہ آیا ہندوستان جہاں ہر سال تقریبا 15 لاکھ انجینئرس تیار ہوتے ہیں

وہ اس قابل نہیں کہ ملک میں سڑکوں کا جال بچھا سکیں ۔ قومی شاہراہوں کی تعمیر میں اہم رول ادا کرسکیں ؟ میٹرو ریل پراجکٹس میں خدمات انجام دیتے ہوئے بیرونی کمپنیوں کے اثر کو کم کرتے ہوئے ملک کی معیشت پر عائد ہونے والے بوجھ کم کرسکیں ؟ آپ کو بتادیں کہ خود ہمارے شہر حیدرآباد فرخندہ بنیاد کی آبادی 8700000 ہے ۔ جب کہ سنگاپور کی آبادی زیادہ سے زیادہ 5.5 ملین یعنی 55 لاکھ ہے جون 2014 میں جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق سنگاپور کی آبادی 5.47 ملین بتائی گئی ۔

آبادی اور انجینئروں کی تعداد میں زمین و آسمان کے فرق کے باوجود ہمارے انجینئرس اپنے بل بوتے پر میٹرو ریل پراجکٹس پر کام کرنے سے قاصر ہیں ۔ حکومتوں کو اسمارٹ سٹیز کے لیے بیرونی کمپنیوں اور ان کے پراڈکٹس اور ماہرین پر انحصار کرنا پڑرہا ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ مودی حکومت قومی شاہراہوں کے پراجکٹس کی جاپان اور سنگاپور جیسے دوست ممالک کی کمپنیوں کے ذریعہ تکمیل کی خواہاں ہے ۔ راقم الحروف نے اس سلسلہ میں کئی انجینئروں سے بات کی جس پر ان لوگوں نے اعتراف کیا کہ ہمارا انجینئرنگ نصاب ازکار رفتہ ہوچکا ہے وہ عالمی معیار کا نہیں رہا اس کے علاوہ سیول ، میکانیکل ، الکٹریکل اینڈ الیکٹرانک انجینئرنگ ، الیکٹرانک اینڈ کمیونیکیشن انجینئرنگ ، الیکٹرانکس اینڈ انسٹرومنٹیشن انجینئرنگ اور انجینئرنگ کے دوسرے تمام شعبوں میں کوئی رابطہ ہی نہیں یعنی یہ کورسس ایکدوسرے سے مربوط نہیں ہیں ۔ اس کے برعکس بیرونی 8 ممالک کی یونیورسٹیز اور انجینئرنگ کالجس میں انجینئرنگ طلبہ کو اس انداز میں تیار کیا جاتا ہے کہ وہ انجینئرنگ کے ہر شعبہ سے اچھی طرح واقف ہوجاتے ہیں ۔

اس کے علاوہ ان کا جو نصاب ہوتا ہے وہ عالمی پیمانے کا ہوتا ہے ۔ ایسے میں ہمارے انجینئرس صرف ایک ہی شعبہ تک محدود ہو کر رہ جاتے ہیں ۔ اس وجہ سے مرکزی و ریاستی حکومتیں بڑے اور اہم انفراسٹرکچر پراجکٹس بیرونی کمپنیوں اور انجینئروں کے حوالے کررہی ہیں ۔ شہر کے ایک اور انجینئر نے بتایا کہ ہندوستان کمپیوٹر سائنس انجینئرنگ میں عالمی سطح پر سرفہرست ممالک میں شامل ہے ۔ سافٹ ویر میں ہماری صلاحیتوں کا مقابلہ کرنا مشکل ہے یہ سب کچھ اس وجہ سے ممکن ہے کہ کمپیوٹر سائنس اور سافٹ ویر کا پیمانہ یا معیار عالمی سطح پر ایک ہی ہے ۔ مشرق وسطیٰ میں برسوں تک انجینئر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے ایک اور انجینئر نے بتایا کہ ہندوستانی انجینئرس اس لیے اچھے ڈیزائنرس نہیں بن سکتے کیوں کہ انہیں انٹرنیشنل اسٹانڈرڈ کے بارے میں کماحقہ واقفیت ہی نہیں ہے ۔ مکہ ٹاور پراجکٹس پر خدمات انجام دینے والے انجینئر محمد عظیم الدین اسد کا کہنا ہے کہ ہمارے انجینئرنگ کالجس میں جہاں نصاب ازکار رفتہ ہوچکا ہے وہیں سمیناروں کا باضابطہ انعقاد عمل میں نہیں لایا جاتا ۔

فرسٹ پوائنٹ کنسٹرکشن سرویس ( انڈیا ) پرائیوٹ لمٹیڈ کے ذریعہ انجینئرنگ کالجس اور طلبہ میں شعور بیدار کرنے والے محمد عظیم الدین کے خیال میں جب تک نصاب اور نظام تعلیم میں تبدیلی نہیں آتی اس وقت تک ہمیں سنگاپور ، جاپان ، امریکہ ، کوریا اور چینی کمپنیوں کی مدد حاصل کرنی پڑے گی ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ خود آندھرا پردیش اور تلنگانہ میں انجینئرنگ کے جملہ 704 کالجس اور 3,40,007 نشستیں ہیں لیکن ایسے کئی کالجس ہیں جہاں فیکلٹی کا مناسب انتظام نہیں جس کے باعث طلبہ کا وقت اور پیسہ دونوں ضائع ہورہے ہیں ۔ اب جب کہ ایمسیٹ کے نتائج آچکے ہیں انجینئرنگ کے خواہاں طلبہ کو بہت ہی سوچ سمجھ کر کالجس اور کورس کا انتخاب کرنا ہوگا ۔۔