پولیس نے فرضی انکاؤنٹر میں وقار اور چار ساتھیوں کو آلیر میں موت کی نیند سلادیا
اسکارٹ پارٹی پر حملہ اور ہتھیار چھین کر فرار ہونے کی کوشش کا دعویٰ لیکن
نعشوں کے ہاتھ میں ہتھکڑیاں ، پاؤں میں بیڑیاں ، قریبی فاصلے سے فائرنگ
حیدرآباد 7 اپریل (سیاست نیوز ) تلنگانہ پولیس نے پانچ مسلم نوجوانوں کو ورنگل کی جیل سے حیدرآباد کی عدالت کو منتقلی کے دوران مبینہ فرضی انکاونٹر میں ہلاک کردیا ۔ وقار احمد اور اس کے 4 ساتھیوں کو ضلع نلگنڈہ کے علاقہ آلیر کے قریب پولیس نے انہیں نشانہ بناتے ہوئے موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ سمجھا جاتا ہے کہ ضلع نلگنڈہ میں جانکی پورم اور سوریہ پیٹ بس اسٹانڈ پر سیمی کے مبینہ ارکان کے ساتھ فائرنگ کے تبادلہ میں ہلاک ہونے والے 4پولیس ملازمین کی انتقامی کارروائی کے طور پر یہ انکاؤنٹر کیا گیا ہے اور پولیس عملے کے حوصلوں کو بلند کرنے کیلئے یہ کارروائی انجام دی گئی۔ تفصیلات کے بموجب وقار اور دیگر کے خلاف پولیس کانسٹبل کو ہلاک کرنے کے کیس میں ورنگل جیل سے حیدرآباد منتقل کرنے کیلئے ایک خصوصی اسکارٹ کی گاڑی میں اے کے 47 اور انساس رائفل سے لیس پولیس دستہ آج صبح جیل سے 8.30 بجے روانہ ہوا تھا اور تقریبا 10.25 کے قریب تنگٹور ولیج کاکتیہ کمان کے قریب سنسان علاقہ میں انہیں گولی مار دی گئی۔ تمام نوجوان انکاونٹر کے دوران ہتھکڑیوں میں جکڑے ہوئے تھے ۔ بعد انکاونٹر پولیس نے یہ دعوی کیا کہ وقار احمد ضروریات سے فارغ ہونے کیلئے اسکارٹ گاڑی سے اُترا تھا اور دوبارہ سوار ہونے کے بعدتحویل میں موجود ملزمین اسکارٹ پارٹی پر حملہ کر کے ان کے ہتھیار چھین کر فرار ہونے کی کوشش کررہے تھے اس لئے ان کا انکاونٹر کردیا گیا ۔ وقار احمد عرف علی خان اور اس کے چار ساتھیوں سید امجد علی عرف سلیمان ساکن سنتوش نگر حیدرآباد ‘ محمد ذاکر ساکن سنتوش نگر ‘اظہار خان متوطن اترپردیش اور محمد حنیف عرف ڈاکٹر حنیف ساکن مشیر آباد جس کا آبائی مقام گجرات ہے کو اے پی ایس پی کانسٹبل رمیش کے قتل مقدمہ کی سماعت کیلئے ورنگل پولیس کی خصوصی اسکارٹ پارٹی انہیں روزانہ کیس کی سماعت کیلئے حیدرآباد لایا کرتی تھی
جبکہ وقار کے مزید دو ساتھیوں ریاض اور سعید جو چیرلہ پلی جیل میںمحروس ہیں کو بھی عدالت میں پیش کیا جاتا تھا ۔ کل بھی مذکورہ نوجوانوں کو نامپلی کورٹ کے 7 ویں اڈیشنل میٹرو پولٹین سیشن جج کے اجلاس میں پیش کیا گیا تھا جس پر وقار احمد نے عدالت میں ایک تحریری حلف نامہ داخل کرتے ہوئے جج سے یہ درخواست کی کہ اسے حیدرآباد کی جیل منتقل کیا جائے تاکہ کیس کی سماعت کیلئے سہولت ہو اور اس نے چند ماہ قبل داخل کئے گئے ایک اور حلفنامہ میں پولیس کی جانب سے اپنی جان کو خطرہ لاحق ہونے کی بات واضح طور پر بیان کی تھی۔ انکاونٹر کے مقام سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تمام پانچ نوجوانوں کو اسکارٹ بس میں قریبی فاصلے سے گولی مار دی گئی اور ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں جکڑے ہونے کے سبب ان کا پولیس تحویل سے فرار ہونا نا ممکن تھا کیونکہ وہ اپنی نشستوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ شبہ کیا جاتا ہے کہ اسکارٹ پارٹی کے علاوہ ایک خصوصی پولیس ٹیم نے ضلع نلگنڈہ کے آلیر مقام پر پہنچ کر یہ کارروائی انجام دی ۔ مہلوک نوجوانوں کی نعشوں کو جنگاوں ایریا ہاسپٹل منتقل کیا گیا جہاں پر جوڈیشیل مجسٹریٹ کی نگرانی میں پوسٹ مارٹم کروایا گیا اور بعدازاں نعشوں کو ورنگل کے ایم جی ایم ہسپتال میں محفوظ کردیا گیا ۔ پولیس نے جولائی سال 2010 میں میں وقار احمد اور اس کے ساتھیوں کو 7 مقدمات میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیا تھا
اور یہ دعوی کیا گیا تھا کہ وقار نے تحریک غلبہ اسلام نامی تنظیم تشکیل دی اور اس تنظیم کی آڑ میں اس نے تین پولیس عہدیداروں کا قتل کیا جبکہ تین کو زخمی کردیا تھا۔ پولیس نے وقار کی گرفتاری کے بعد یہ دعوی کیا تھا کہ 18 مئی سال 2007 میں پیش آئے مکہ مسجد بم دھماکہ کے بعد ہوئی پولیس فائرنگ جس میں 9 مصلی جاں بحق ہوگئے تھے ، اس کا انتقام لینے کے لئے وقار مبینہ طور پر دھماکے کی برسی کے موقع پر ہر سال پولیس ملازمین کو نشانہ بنارہا تھا ۔ وقار پر الزام ہے کہ اس نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کاونٹر انٹلی جنس سل کے عملے پر 3 ڈسمبر 2008 میں حملہ کیا تھا جس میں کانسٹبل گرو راما راجو اور محمد جعفر زخمی ہوگئے تھے‘ جبکہ 18 مئی سال 2009 کو فلک نما علاقہ میں پولیس پکٹ پر تعینات ہوم گارڈ بالا راجو کو مبینہ طور پر نشانہ بنایا تھا اور 14 مئی سال 2010 کو مکہ مسجد بم دھماکے کی تیسری برسی کے موقع پر شاہ علی بنڈہ علاقہ میں کانسٹبل رمیش کو نشانہ بنایا تھا جس میں وہ ہلاک ہوگیا تھا۔ اسی طرح وقار کے خلاف شہر کے چار ای سیوا سنٹرس کو لوٹنے کے بھی مقدمات درج کئے گئے تھے اور سال 2010 میں گجرات کے منی نگر پولیس اسٹیشن میں نریندر مودی کو ہلاک کرنے کی سازش رچنے سے متعلق ایک مقدمہ درج کیا گیا تھا اس سلسلہ میں گجرات میںپر بھی ایک مقدمہ درج ہے ۔