حکومت کی سرد مہری آشکار ، اقلیتوں کے ساتھ ہمدردی کا دعویٰ کھوکھلہ ثابت
حیدرآباد ۔ یکم مارچ (سیاست نیوز) حکومت کو اقلیتی اداروں سے کس قدر دلچسپی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اقلیتوں کے حقوق اور مفادات کا تحفظ کرنے سے متعلق اقلیتی کمیشن کو دو ماہ سے دفتر الاٹ نہیں کیا گیا۔ اقلیتی کمیشن واحد بااختیار ادارہ ہے جو کسی بھی ریاست کے دیگر اقلیتی اداروں میں اختیارات کے اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے ۔ اقلیتی کمیشن کو اقلیتوں کے دستوری حقوق کے تحفظ اور ناانصافی کی صورت میں اپنے طور پر تحقیقات کرنے اور عہدیداروں کو طلب کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ ایسے وقت جبکہ تلنگانہ میں اقلیتی بجٹ کی عدم اجرائی سے کئی اسکیمات متاثر ہوئی ہیں، اقلیتوں کو نمائندگی کیلئے واحد ادارہ اقلیتی کمیشن رہ جاتا ہے۔ لیکن افسوس کہ حکومت نے کمیشن تو تشکیل دیدیا لیکن دو ماہ گزرنے کے باوجود کمیشن کو دفتر الاٹ نہیں کیا گیا اور نہ ہی صدرنشین اور ارکان کی تنخواہیں جاری کی گئیں۔ حد تو یہ ہوگئی کہ حکومت نے تنخواہوں اور دیگر مراعات کے سلسلہ میں ابھی تک احکامات جاری نہیں کئے ۔ اقلیتی کمیشن کے صدر اور ارکان کی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ وہ دفتر کے الاٹمنٹ کیلئے چیف سکریٹری اور دیگر عہدیداروں کے دفاتر کے چکر کاٹنے پر مجبور ہیں۔ کمیشن نے دفتر کیلئے بعض عمارتوں کی نشاندہی کی لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کا جی اے ڈی ڈپارٹمنٹ ان عمارتوں کو اقلیتی کمیشن کے حق میں الاٹ کرنے تیار نہیں۔ دو ماہ گزرنے کے باوجود جب کمیشن کو دفتر ہی الاٹ نہیں کیا گیا تو پھر اس سے کارکردگی کی توقع کس طرح کی جاسکتی ہے ۔ حکومت اپنے تساہل کے ذریعہ کمیشن کی کارکردگی میں رکاوٹ بن چکی ہے ۔ اگر کمیشن کو کارکرد کرنا مقصود نہیں تھا تو پھر اسے تشکیل کیوں دیا گیا ۔ عابد رسول خاں کی میعاد کے اختتام کے بعد حکومت نے کمیشن کے دفتر راج بھون روڈ سے ہٹاکر ارم منزل میں ایک کمرہ تک محدود کردیا تھا۔ اقلیتی کمیشن کی تشکیل 2 جنوری کو جی او ایم ایس نمبر 2 کے ذریعہ عمل میں لائی گئی۔ بعد میں 18 جنوری کو جی او ایم ایس 4 کے ذریعہ نائب صدرنشین کو تبدیل کیا گیا اور ایک اور رکن کا اضافہ کیا گیا۔ 2 مارچ کو کمیشن کی تشکیل کے دو ماہ مکمل ہوجائیں گے لیکن ابھی تک دفتر کے الاٹمنٹ کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔ بتایا جاتا ہے کہ راج بھون روڈ پر واقع عمارت اور واٹر ورکس کی عمارت میں دفتر الاٹ کرنے کیلئے کمیشن کے صدرنشین نے حکومت سے نمائندگی کی۔ انہیں تیقن دیا گیا کہ سکریٹریٹ میں چیمبر الاٹ کیا جائے گا لیکن ابھی تک کسی بھی مقام پر دفتر کی سرگرمیاں دکھائی نہیں دے رہی ہیں۔ لہذا کمیشن کے صدرنشین محمد قمرالدین اپنی قیامگاہ سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ کمیشن نے ابھی تک باقاعدہ کارکردگی کا آغاز نہیں کیا۔ حال ہی میں کمیشن نے ورنگل میں اقلیتی اقامتی اسکول فار گرلز کا دورہ کرتے ہوئے نقائص کا پتہ چلایا تھا ۔ کمیشن کے دورہ کے موقع پر کئی خامیاں پائی گئیں جس کی اخبارات میں کافی تشہیر کی گئی۔ بتایا جاتا ہے کہ حکومت کے ادارہ کی جانب سے سرکاری اقامتی اسکول کی کارکردگی کو نشانہ بنانے کا مسئلہ چیف منسٹر کے دفتر تک پہنچ گیا۔ ٹی آر ایس کے بعض قائدین نے اس بات کی شکایت کی کہ کمیشن کے دورہ سے اقامتی اسکولوں کی بدنامی ہوئی ہے۔ چیف منسٹر اقامتی اسکولوں کے معاملہ میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں لیکن کمیشن نے جس انداز میں اقامتی اسکول کے خامیوں کو اجاگر کیا ، اس سے اقلیتی طبقہ میں غلط پیام گیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اسی ناراضگی کے چلتے آفس کے الاٹمنٹ میں تاخیر کی جارہی ہے ۔