دل کو ہم سمجھائیں کیسے ہر سوآگ بھڑکتی ہے
کڑوی کڑوی حقیقتیں ہیں میٹھی میٹھی باتیں ہیں
تلنگانہ اسمبلی
تلنگانہ میں گذشتہ 6 ماہ سے برقی بحران پر شوروغل کرکے عوام کے کان پکانے والی اپوزیشن پارٹیوں کو حکومت تلنگانہ کے اس ادعا کی جانب غور کرنے کی توفیق نہیں ہورہی ہے کہ آندھراپردیش کی حکومت اس نئی ریاست کو اس کے حصہ کی برقی سربراہ کرنے میں کوتاہی کررہی ہے۔ قانون ساز اسمبلی میں چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے بھی برقی کے سنگین بحران کی جانب ایوان کی توجہ مبذول کروائی ہے کہ آندھراپردیش تنظیم جدید قانون کے تحت سری سیلم میں پیدا کی جانے والی برقی کے مستحقہ حصہ کو سربراہ کیا جائے۔ برقی پیداوار کے لئے سری سیلم سے پانی حاصل کرنے کے باوجود تلنگانہ کو برقی سربراہ کرنے میں کوتاہی سے کئی مسائلپیدا ہورہے ہیں۔ چیف منسٹر آندھراپردیش چندرا بابو نائیڈو پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ تلنگانہ کے حصہ کی برقی سربراہ کرنے میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ انہیں ’’لفنگا ‘‘ بھی کہہ کر مخاطب کیا گیا جبکہ ایوان اسمبلی میں آداب و شائستگی کی برقراری ہر رکن کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ایوان میں حکومت اور اس کے نمائندوں نے اپوزیشن کو بھی خاطر میں نہیں لایا ہے۔ چیف منسٹر ان کے وزراء اور ٹی آر ایس کے ارکان اسمبلی نے تلگودیشم اور کانگریس پر شدید تنقیدیں کی۔ اسمبلی کے اندر اور باہر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان یوں ہی الزامات و جوابی الزامات کا سلسلہ جاری رہے گا تو برقی و دیگر عوامی مسائل کی یکسوئی پر توجہ نہیں دی جاسکے گی۔ اگرچیکہ ہر دو پارٹیوں کے قائدین نے عوام کی خدمت کے جذبہ کے ساتھ ہی ان سے ووٹ لے کر ایوان تک رسائی حاصل کی تھی۔ اب ہر دو گروپ کے ارکان کی ذمہ داری ہیکہ وہ عوام کی ضرورت سے مربوط مسائل کی عاجلانہ یکسوئی کی کوشش کریں۔ تلنگانہ کے وجود میں آنے کے بعد روزاول سے ہی برقی بحران میں شدت پیدا ہوئی ہے تو اس جانب جنگی خطوط پر توجہ دے کر مسئلہ کی یکسوئی کو یقینی بنانا چاہئے تھا لیکن حکومت نے اور نہ ہی اپوزیشن نے عوام کے اس مسئلہ کی یکسوئی کی کوشش کی۔ اسمبلی میں چیف منسٹر نے سنگین برقی بحران کی جانب ایوان کی توجہ مبذول کروائی ہے تو ہر پارٹی کو سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر بحران کو دور کرنے کیلئے ایک دوسرے کا تعاون کرنا ہوگا۔ چیف منسٹر نے برقی مسئلہ پر ایک قرارداد بھی منظور کرالی ہے۔ غور طلب امر یہ ہیکہ جب ریاست کی تقسیم عمل میں آئی تھی اس خصوص میں ایک آندھراپردیش تنظیم جدید قانون وضع کیا گیا تھا جس کے مطابق ہی ہر دو ریاستوں کو باہمی مسائل و ضروریات کی تکمیل پر توجہ دینی ہے لیکن حکومت آندھراپردیش سے یہ شکایت کی جارہی ہیکہ اس نے تلنگانہ کے حصہ کی برقی کو فراہم کرنے کی کوتاہی کی ہے۔ آندھراپردیش میں واقع برقی اسٹیشنوں سے تلنگانہ کو 53.89 فیصد برقی کا حصہ سربراہ کرنا ایک جائز عمل ہے لیکن تلنگانہ کو اس کا حصہ نہیں مل رہا ہے تو ایسے میں مرکز کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ نئی ریاست کی پریشانیوں پر توجہ دے کر اس کی شکایات کا ازالہ کرے۔ ایوان میں منظورہ قرارداد پر توجہ دینے مرکزی حکومت کو تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔ قرارداد کے مطابق تلنگانہ کو 24 گھنٹے برقی سربراہ کرنے مرکز کی اسکیم میں شامل کیا جانا چاہئے اور اس سلسلہ میں ہونے والی خلاف ورزیوں و ناانصافیوں کا جائزہ لیتے ہوئے حکومت آندھراپردیش سے بات چیت کرنی چاہئے۔ کل جماعتی وفد کے ساتھ مرکز سے نمائندگی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے توتمام پارٹیوں کے نمائندہ ارکان کو چیف منسٹر کے ساتھ تعاون کرنے کی ضرورت ہے۔ جن مسائل کو سابق میں کانگریس اور تلگودیشم حکومتوں نے نظرانداز کردیا تھا اب یہ مسائل سنگین رخ اختیار کرچکے ہیں۔ ایک نئی ریاست تلنگانہ کیلئے کم وقت میں تمام مسائل حل کرنا ایک مشکل مرحلہ ہے۔ کے چندرشیکھر راؤ ریاست تلنگانہ کے صرف چیف منسٹر ہی نہیں بلکہ نئی ریاست کے قیام کے محرک بھی ہیں۔ انہوں نے عوام کی آنکھوں میں سنہرے تلنگانہ کے خواب سجائے ہیں۔ انہیں پورا کرنے کیلئے سخت محنت کرنی پڑے گی۔ اپوزیشن سے تصادم کا راستہ اختیار کئے بغیر دوستانہ ماحول میں سرکاری پالیسیوں اور ضرورتوں کو پورا کرتے ہوئے عوام کی بہتر خدمت کو ترجیح دی جانی چاہئے۔ ریاست کو اس سال برقی بحران کے ساتھ آبی مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑے گا خاص کر دونوں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد کیلئے پینے کے پانی کی سربراہی بھی حکومت کی توجہ کا محتاج ہے۔ آئندہ گرما سے قبل حکومت نے برقی و پانی کے مسئلہ پر اولین توجہ دے کر جنگی بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں تو مسائل کی یکسوئی میں کسی حد تک کامیابی ملے گی۔