گرمئی گفتار اعضائے مجالس الاماں!
یہ بھی اک سرمایہ داروں کی ہے جنگ زرگری
تلنگانہ اسمبلی میں ہنگامہ
تلنگانہ اسمبلی میں ڈسپلن شکنی کی پاداش میں تلگودیشم کے 10 ارکان کو پورے بجٹ سیشن تک معطل کردیا گیا ۔ایوان میں کانگریس رکن اور ریاستی وزیر کے درمیان لفظی جھڑپ اور مائیک کو پھینکنے کے واقعات بھی بدبختانہ ہیں۔ اپوزیشن کے احتجاج کو جمہوری نکتہ نظر سے حکمراں پارٹی کے لئے ایک مشعل راہ متصور ہوتا ہے مگر اسمبلی میں نظم و ضبط کی برقراری کی خاطر جب کسی غیراصولی احتجاج کو روکنا ہوتا ہے تو احتجاجی ارکان کو معطل کردیا جاتا ہے ۔ تلگودیشم کے جن ارکان نے حکومت کے خلاف احتجاج کیا تھا ان پر یہ بھی الزام ہے کہ انھوں نے قومی ترانہ کی توہین کی ۔ تلنگانہ بجٹ سیشن کے آغاز کے پہلے دن ان ارکان نے گورنر کے خطبہ میں خلل پیدا کرنے اور ہلڑ بازی کا مظاہرہ کیا گیا ۔ چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے اپنی مادر پارٹی تلگودیشم کے ساتھی ارکان کے خلاف کی گئی کارروائی کو حق بجانب قرار دیا ہے ۔ ایوان میں ہنگامہ آرائی کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن ایوان کے نظم و ضبط کو برقرار رکھنا ضروری ہے ۔ غیرپارلیمانی زبان کا استعمال کیا جاتا ہے تو اس کے لئے اسپیکر کی کارروائی اور سرزنش بھی ایک حد تک محدود ہوتی ہے مگر تلگودیشم کے 10ارکان کو پورے بجٹ کیلئے معطل کردیا جانا غورطلب کارروائی ہے ۔ گورنر کے خطبہ کے دوران بدتمیزی کی گئی وہ قابل مذمت سمجھی جارہی ہے ۔ پیر کے دن بھی ارکان کی بدتمیزی کو دیکھتے ہوئے اسپیکر نے سخت قدم اُٹھایا ۔ دراصل یہ ارکان تلنگانہ کابینہ میں ایک بھی دلت کو جگہ نہ دیئے جانے کا الزام عائد کرتے ہوئے احتجاج کررہے تھے ۔ مارشلس کی مدد سے ایوان کے باہر کردیا گیا ۔ تلگودیشم گوشوں میں حکومت کی یہ کارروائی ایک ہٹ دھرم رویہ کہلاتی ہے ۔ اب رہا سوال یہ کہ آخر حکومت نے تلگودیشم ارکان کو بجٹ اجلاس کے اختتام تک معطل کیوں رکھا ۔ ایوان میں اپوزیشن کے بغیر حکومت اپنے عوامی وعدوں اور مسائل کی یکسوئی کے لئے کس طرح بجٹ مباحث کرسکے گی ۔ جمہوریت تقاضہ کرتی ہے کہ ریاست میں ہر ایک طبقہ اور علاقہ کو نمائندگی دی جائے ۔ اگر کے سی آر کی کابینہ میں دلت طبقہ کو نمائندگی نہیں دی گئی تو اس پر ہونے والے احتجاج کو یوں کچل دینے کی کارروائی جمہوری طرز کی حکمرانی کے آئینہ میں کیا متصور ہوگی یہ جمہوریت پسند سیاستدانوں کو محسوس ہونا چاہئے ۔ ایوان اسمبلی سے معطل شدہ ارکان کو قومی ترانے کی توہین کے الزام میں گرفتار بھی کیا گیا ۔ تلگودیشم فلور لیڈر ای دیاکر راؤ ، ڈپٹی لیڈر آر ریونت ریڈی اور چار دیگر ارکان اسمبلی کو گن پارک پر احتجاجی مظاہرہ کرنے پر حراست میں لیا گیا تو یہ اپوزیشن کی آواز کو بری طرح کچلنے کی کوشش ہے ۔ تلنگانہ اسمبلی میں اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ مل کر مسائل کی یکسوئی کی جانب قدم اٹھانا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ ٹی آر ایس نے شروع سے اپوزیشن کو اپنا کٹر حریف متصور کیا ہے تو یہ سیاسی روایت کا تسلسل ہے مگر جب عوامی مسائل اور عوامی راحت اقدامات کا سوال ہوتا ہے تو ایوان اسمبلی کے نظم و ضبط کو برقرار رکھتے ہوئے تمام اپوزیشن کو اپنے ساتھ لے کر چلنا ہی کامل حکمرانی کی شاندار علامت ہوتی ہے ۔ مگر کے سی آر کے رویہ پر نہ صرف تلگودیشم بلکہ کانگریس کے ارکان ناراض ہیں۔ نئے صدر پردیش کانگریس تلنگانہ اتم کمار ریڈی نے بھی چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ کی حکمرانی کو ’’تغلق‘‘ کی حکمرانی سے تعبیر کیا ہے ۔ ان کا بھی الزام ہے کہ ٹی آر ایس نے اپنی 10 ماہ کی حکمرانی کے دوران کابینہ میں دلت طبقہ کو بری طرح نظرانداز کیا ہے ۔ کے سی آر نے اپنے انتخابی وعدوں میں سے کسی ایک وعدہ کو پورا نہیں کیا ہے ۔ انھوں نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ ہریجنوں میں فی کس 3 ایکڑ اراضی تقسیم کریں گے ، گریجنوں کے لئے اتنی ہی اراضی دینے کا تیقن دیا تھا لیکن اب تک ہریجنوں ، گریجنوں میں کتنی اراضی الاٹ کی گئی ہے اس کا کوئی حساب کتاب نہیں ہے ۔ کے سی آر پر مطلق العنان حکمراں بننے اور اپنی ذات میں غیرمعمولی اختیارات کے ارتکاز کے لئے اقدامات کرنے کا بھی الزام ہے ۔انھوں نے تلنگانہ کے قیام سے قبل تمام طبقات کے لئے جو خواب سجا رکھے تھے وہ ابھی تک سراب ہیں۔ تاہم کے سی آر حکومت نے بیشمار مشکلات اور رکاٹوں کے باوجود حکومت کے 10ماہ کو پرسکون طورپر پورے کرلیا ہے ۔ اس لئے اپوزیشن کو ان کی حکمرانی ایک کڑوی گولی لگ رہی ہے تو ایوان اسمبلی میں اپنے احتجاج کے ذریعہ غیراصولی حرکتیں کرنی شروع کیں۔ تلگودیشم ارکان کو انتباہ دیا جاکر کارروائی کی جاسکتی تھی مگر اس کے بجائے تمام بجٹ اجلاس کیلئے معطلی تلگودیشم کو تلنگانہ میں مضبوط بنانے کی جانب پہلا قدم بھی ہوسکتی ہے ۔ کیوں کہ جب کبھی کسی پارٹی کو کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ عوام کے نزدیک پہلے سے زیادہ عزیز بنتی ہے ۔