لکھتے رہے جنوں کی حکایاتِ خونچکاں
ہرچند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
تلنگانہ۔ آندھرا اختلافات
آندھرا پردیش ریاست جب متحد تھی اس وقت سے تلنگانہ علاقہ کے ساتھ مسلسل نا انصافیوں کا سلسلہ چلتا رہا تھا اور چھ دہوں تک ناانصافیوں کا شکار ہونے کے بعد تلنگانہ عوام نے اپنے لئے علیحدہ ریاست کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک کامیاب جدوجہد شروع کی تھی۔ تلنگانہ تحریک جب اپنے منطقی انجام کو پہونچی تو یہ امیدیں کی جا رہی تھیں کہ تلنگانہ کے عوام کے ساتھ اب کسی طرح کا امتیاز نہیں برتا جائیگا اور انہیں اپنے حقوق حاصل ہوجائیں گے۔ آندھرا علاقہ سے تعلق رکھنے والے سیاسی قائدین ‘ عوامی تنظیموں اور سرکاری ملازمین نے تک بھی تلنگانہ ریاست کی تشکیل کو روکنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا اور ان کی جدوجہد کو کامیاب بنانے کیلئے انہوں نے ہر طریقہ بھی اختیار کیا لیکن وہ اس کوشش میں کامیاب نہیں ہوسکے اور تلنگانہ عوام کی حصول انصاف کی جدوجہد بالآخر اپنے منطقی انجام کو پہونچی۔ تلنگانہ عوام کا دیرینہ خواب شرمندہ تعبیر ہوگیا اور 2 جون 2014 کو علیحدہ ریاست تلنگانہ کا وجود عمل میں آگیا۔ ہندوستان کی 29 ویں ریاست کی حیثیت سے تلنگانہ کی عمر ابھی تین ماہ بھی پوری نہیں ہوئی ہے اور اسے کئی مسائل اور چیلنجس کا سامنا ہے۔ ان میں آندھرائی علاقہ کے جبر و استبداد کا مسئلہ ہنوز برقرار ہے اور یہ سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے اور اسی کو حل کرنا ضروری ہوگیا ہے۔ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے فیصلے کو ایسا لگتا ہے کہ آندھرا کے عوام اور سیاسی قائدین کے علاوہ سرکاری افسر بھی ابھی تک قبول نہیں کرپائے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ علیحدہ ریاست کی تشکیل کے باوجود تلنگانہ میں اپنی مرضی چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تلنگانہ عوام کیلئے مسائل پیدا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ تلنگانہ حکومت کیلئے مسائل پہلے ہی سے پیدا کئے جا رہے ہیں۔ کئی شعبہ جات ایسے ہیں جن میں آندھرائی سیاسی قائدین اور عوامی تنظیموں کی جانب سے تلنگانہ کیلئے مسائل پیدا کئے جارہے ہیں۔ سب سے اہم مسئلہ اسکالرشپس کی تقسیم کا ہے ‘ پھر انجینئرنگ داخلوں کا ہے ‘ عہدیداروں اور سرکاری ملازمین کی تقسیم اور ان کی اپنی اپنی ریاستوں میں تعیناتی کا مسئلہ ہے۔ یہ تمام ایسے مسائل ہیں جو حکومت کے کام کاج پر اثر انداز ہوسکتے ہیں اور ان کو بسرعت اور منصفانہ ڈھنگ سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ تلنگانہ اور آندھرا پردیش کی ریاستوں کے درمیان سرکاری ملازمین کی تقسیم ‘ ریاستی سیکریٹریٹ اور حیدرآباد میں قائم ڈائرکٹوریٹس میں برسر کار ملازمین کے الاٹمنٹ ‘ پیشہ ورانہ کالجس میں داخلوں اور طلبا کی اسکالرشپس کی ادائیگی جیسے مسائل پر شدید اختلافات ہیں۔ دونوں ریاستوں کے چیف منسٹروں کے چندر شیکھر راؤ اور این چندرا بابو نائیڈو کے مابین دونوں ریاستوں کے گورنر ای ایس ایل نرسمہن کی پہل پر آج ملاقات بھی ہوئی ہے اور دونوں چیف منسٹروں نے ادعا کیا ہے کہ یہ ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی ہے۔ دونوں چیف منسٹرس نے متنازعہ مسائل کو باہمی طور پر قابل قبول انداز میں حل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور ملازمین کے تقسیم کے کام کو جلد مکمل کرنے کی ذمہ داری دونوں ریاستوں کے چیف سکریٹریز کو سونپی ہے۔ اب یہ چیف سکریٹریز کا فریضہ بنتا ہے کہ وہ دونوں ہی ریاستوں اور وہاں کے عوام کی بہتری اور ترقی کو ذہن میں رکھتے ہوئے پورے جائز اور منصفانہ انداز میں عہدیداروں کی تقسیم کو یقینی بنائیں۔ یہ عمل تاخیر کا بھی شکار نہیں ہونا چاہئے کیونکہ دونوں ہی ریاستوں کو کئی اہم مسائل کا سامنا ہے۔ یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ ملازمین کے الاٹمنٹ میں ان کی آبائی ریاستوں کا لحاظ رکھا جائے کیونکہ ایک دوسرے کے حقوق کا خیال کئے بغیر کسی بھی ریاست سے انصاف نہیں کیا جاسکتا۔ تلنگانہ کے ملازمین کو ہمیشہ ہی آندھرائی ملازمین کے تسلط کی شکایت درپیش رہی ہے اور اب علیحدہ ریاست تلنگانہ کی تشکیل کے باوجود اگر انہیں اسی طرح کے مسائل کا سامنا رہتا ہے تو پھر علیحدہ ریاست کے فوائد سے وہ محروم رہیں گے۔ دونوں ہی ریاستوں کی حکومتوں کو یہ حقیقت ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ وہ آپسی اختلافات اور ایک دوسرے کیلئے رخنہ اندازی میں اگر مصروف ہوجاتے ہیں تو ترقی کا سفر متاثر ہوسکتا ہے۔ دونوں ہی ریاستوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ تسلط کی حکمت عملی ‘ دوسرے کے حقوق پر غاصبانہ قبضہ اور ہٹ دھرمی کے رویہ کوترک کرتے ہوئے اپنے اپنے موقف میں لچک پیدا کریں اور ریاستی گورنر کی کوششوں سے جو پہل ہوئی ہے اور دونوں وزرائے اعلی کی ملاقات میں جو خوشگوار ماحول پیدا ہوا ہے اس سے استفادہ کرتے ہوئے اختلافات کو حل کرنے میں واقعتا کوئی پیشرفت ہوسکے۔ جب تک یہ مسائل حل نہیں ہونگے اور دونوں ریاستوں کے مابین تصادم کا ماحول ختم ہوکر باہمی اتفاق کا ماحول پیدا نہیں ہوگا اس وقت تک نہ آندھرا کی ترقی ممکن ہوسکتی ہے اور نہ تلنگانہ ریاست کے عوام کو علیحدہ ریاست کے ثمرات سے مستفید ہونے کا موقع مل سکتا ہے۔