تقریب ولیمہ اورنیم عریاں رقص

مسلم سماج کی اکثرتقاریب شادی بیاہ ،ولیمہ ودیگرتقاریب اسراف ،بیجارسومات اورلا یعنی خرافات کے ساتھ انجام پا رہی ہیں۔نکاح سنت ہے اورآسان ہے جوبغیرخرچ یا بہت کم خرچ کے ساتھ کیا جاسکتاہے ،حضورانور ﷺنے اس نکاح کوبابرکت فرمایاہے جس میں خرچ کم ہو۔اسلام نے نکاح کے عنوان سے لڑکی والوں پرکوئی مالی بوجھ عائد نہیں کیاہے ،البتہ لڑکے کیلئے ’’ولیمہ ‘‘ سنت ہے،اس کے علاوہ شرعی احکام کے مطابق زرمہرکی ادائیگی لازم ہے۔نکاح ہو یا ولیمہ سنت ہیں اوران کو سنت کے مطابق انجام دینے کے مسلمان پابندہیں،لیکن کس قدرافسوس کی بات ہے نکاح مسنونہ کی تقریب ہویا ولیمہ مسنونہ کی ہردواسلام کی روح سے خالی اورسنت کے نورسے عاری ہیں۔اسراف وفضول خرچی ،نمودونمائش،غیرشرعی رسوم ورواجات ، بیانڈباجہ ،کرتب بازی وآتش بازی وغیرہ نے نکاح کے اصل مقصدکوپس پشت ڈال دیاہے۔ان کے حرام وناجائزہونے میں کوئی دورائے نہیں،پھربھی مسلمان ان سے دستبردارہونے تیارنہیں،مسلم ممالک بارودکی ڈھیرپرہیں ،یکے بعددیگرے مسلم ممالک کا جوعبرتناک انجام ہورہاہے ،مسلم ممالک کے باشندے جس دردوکرب سے گزار ے جارہے ہیں کسی سے پوشیدہ نہیں۔

جمہوری ممالک اور خود جمہوری ملک ہندوستان میں اسلام اورمسلم دشمنی کے واقعات اورمسلمانوں پرڈھائے جانے والے مظالم دنیا کی موجودہ تاریخ کا ایک سیاہ باب ہیں،اسلام اورمسلم دشمن طاقتیں مذکورہ ہدف کیلئے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ متحدہ گھیرائو کررہی ہیں۔عرصہ حیات تنگ کرتے ہوئے مسلمانوں کے اطراف گویا خندق کھودی جارہی ہے کہ وہ سکون سے جی سکیں اورنہ جان بچانے کیلئے کوئی بھاگ دوڑکرسکیں،ان جیسے روح فرسا حالات میں کیا یہ بات زیبا ہے کہ سنت کے عنوان سے مسلمان مسرت وخوشی کے وہ بھی ناجائزجشن منائیں۔قدیم شہرکے ایک شادی خانہ میں گزشتہ دنوں ناجائزوحرام کی ساری حدوں کوتوڑکرنیم عریاں رقص وسرود’’آرکسٹرا‘‘کا اہتمام پھرڈرون کیمروں کے ذریعہ ان فحش مناظرکی فلم بندی اورمسلم سیاسی نمائندوں کے ساتھ مسلم عوام کی شرکت اورحظ اندوزی کی خبر ’’سیاست نیوز ‘‘کے حوالہ سے ۲۲؍جولائی شائع ہوئی ہے۔گانے بجانے،عشقیہ اشعارسننے سنانے کیلئے محفل طرب کے انعقادپھراس میں خواتین کے نیم عریاں رقص کے انتظام کے سخت حرام وناجائز ہونے میں کوئی کلام ہی نہیں ،اسکی شدید حرمت کے باوجودمسلمان اس کا انعقادکریں اس کا توکوئی تصورہی نہیں چہ جائیکہ سنت ولیمہ کی مبارک تقریب کی پاکیزگی کوفواحش ومنکرات کی گندگی سے آلودہ کرکے غیر پاکیزہ بنادیا جائے ۔ان دل برداشتہ حالات نے مسلمانوں کی اسلام پسندی پرایک سوالیہ نشان کھڑا کردیاہے کہ آیا مسلمان اللہ سبحانہ اوراسکے رسول ﷺ اوراسلامی شریعت کوعزیزرکھتے ہیں یا پھرسنت کے نام پرسنت کا مذاق اڑانے اوراسلامی احکام سے کھلواڑکرنے کوپسندکرتے ہیں۔گانا بجانا ،برہنہ رقص وڈانس کی محفلیں جمانا اورفحش مناظرکو پھیلانا جہاں اسلام میں سخت ناجائزوحرام ہے وہیں رات بھرشورشرابہ برپاکرکے فضائی وصوتی آلودگی پیداکرنا جس سے اطراف واکناف کے شہریوں کی نیندحرام ہوجائے ،بیمار،ضعیف ، کمزوروناتواں ،نحیف ونزار،بوڑھے ،معصوم بچے ، بیکل وبے قرار ،مضطرب و پریشان ہوجائیں یہ بھی سخت گناہ ہے۔لیکن افسوس سخت ترین امتحان وآزمائش کے دورمیں ملت احساس کی نعمت سے محروم ہے، پھروہ کونسے حالات ہوں گے جومسلمانوں کونوشتہ دیوار پڑھنے اوربحیثیت مجموعی اصلاح پرآمادہ کریں گے۔

سورہ لقمان آیات ۲تا۴میں محسنین ومتقین کے اوصاف ذکر کرتے ہوئے ان کی توصیف بیان کی گئی ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں جواپنے رب کی طرف سے ہدایت پرہیں اوریہی نجات یافتہ ہیں،ان کے ذکرکے بعدآیت ۶میں ان بدبختوں کا ذکرہے جوکلام الہی کے سننے سے اعراض کرتے اور لہوالحدیث یعنی نغمہ وموسیقی کے آلات کی خریدوفروخت پھراس سے دل بہلاتے اوردیگرمنکرات میں کھوئے رہتے ہیںاوراپنی جہالت کی وجہ خودگمراہ ہوتے ہیں اوردوسروں کوگمراہی کے راستہ پرڈالتے ہیںاوردین کے تمسخرواستہزا کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔الغرض ناچنے ،گانے ،آلات طرب سے حظ اندوزہونے اورلہولعب میں مشغولیت شیطانی کام ہیں۔ فواحش ومنکرات کی اشاعت کے سارے سازوسامان جن میں موجودہ جدید ترین ترقی یافتہ ایسی ایجادات بھی شامل ہیں جوبے حیائی کوفروغ دے رہی ہیں،دورجاہلیت میں بعض خدادشمن نفس پرست افراد گانے بجانے ،ناچنے اورڈانس کرنے والی لونڈیاں خریدتے تاکہ اپنا دل بہلائیں اوردوسروں کوان سے دل بہلانے کا موقع فراہم کریں تاکہ وہ حق کا پیغام سننے اوراس کوماننے کی طرف راغب نہ ہوں ۔شیطان لعین نے اولاد آدم کوراہ حق سے گمراہ کرنے کی قیامت تک کیلئے مہلت طلب کی تواللہ سبحانہ نے سورہ بنی اسرائیل آیات ۶۳تا۶۵میں جہاں یہ فرمایا کہ میرے ایمان والے بندوںپرتیرا دائو نہیں چل سکے گا،وہیں اس کی تابعداری کرنے والے انسانوں کے بارے میں فرمایا کہ ان میں جسے بھی تو چاہے اپنی آوازسے بہکاسکے توبہکالے ،اس سے ہر وہ آواز مراد ہے جواللہ سبحانہ کی معصیت کی طرف دعوت دے،عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس کی تفسیربانسری اورآلات موسیقی سے کی ہے ۔امام ضحاک ،امام ابن المنذراورامام ابن جریررحمہم اللہ کے حوالہ سے امام مجاہدرحمہ اللہ نے یہی تفسیرنقل کی ہے (روح المعانی:۱۵؍۱۱۱،الجامع لاحکام القرآن:۱۳؍۱۱۸)سیدنا محمدرسول اللہ ﷺ کی مجلس میں کسی نے دریافت کیا کہ اس امت کو زمین میں دھنسانے ،صورتیں مسخ کرنے اورپتھروں کی بارش جیسے عذاب سے کب دوچارکیاجائے گا؟آپ ﷺ نے فرمایا جب گانے بجانے والیاں ظاہرہوں گی اورشراب پی جائے گی(ترمذی،کتاب الفتن ۲؍۲۴۲) سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ’’لہو الحدیث‘‘کی تفسیرگانے بجانے اورسننے کے اہتمام سے کی ہے۔مجاہد اور عکرمہ جیسے مشہورمفسرین نے بھی یہی بات مراد لی ہے،سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے تین مرتبہ قسم کھاکریہی بات کہی ہے (طبری؍۶؍۶۱) اللہ سبحانہ نے قرآن پاک میں : وینہی عن الفحشاء والمنکرفرماکربے حیائی کے کاموں پرسخت روک لگائی ہے،وہ سارے اقوال وافعال جوبے حیائی کوفروغ دیں ’’فواحش‘‘ہونے کے ساتھ شریعت مطہرہ میں ان کے ناجائزوحرام ہونے کی وجہ’’ منکر‘‘بھی ہیں۔اسی طرح مسلمانوں میں جو بے حیائی پھیلانے کوپسندکرتے ہیں ان کے لئے دنیا وآخرت میں دردناک عذاب کی وعیدبیان ہوئی ہے (النور:۱۹) شادی بیاہ،ولیمہ اوردیگرتقاریب کے انعقادمیں مسلمان اسلامی احکام کے پابند ہیں،

ان کی ہرتقریب خاص طورپر شادی وولیمہ ہرطرح کے خرافات ،غیرشرعی رسوم ورواجات سے پاک ہوں۔عام طورپرتقاریب میں خواتین کا غیراسلامی لباس اورشرعی حدودسے تجاوزکرتے ہوئے بنائو سنگھار،ویڈیوگرافی وہ بھی اجنبی مردوں کے ہاتھوں پھراس کی اشاعت ،زنانی حصہ میں بے تکلف مردوں کی آمدورفت اورخواتین کے دسترخوان پرمردبٹلروں کا انتظام یہ سب ایسے امورہیں جو اسلامی اقدارواخلاق اورحیاء وحجاب کے اسلامی تقاضوں کا گلا گھونٹ رہے ہیں۔جوانسانی حمیت وایمانی غیرت وحیاء کو للکاررہے ہیں یہ خرابیاں وبرائیاں کیا کم تھیں کہ اب ’’Russian ‘‘وغیرہ سے درآمد(Import )آبروباختہ ڈانسروں کا عریاں رقص و ڈانس کا خلاف تقاضہء ایمان و منافی حیاء واقعہ دینی حلقوں میں اضطراب وبے چینی پیدا کرگیا ہے ،اللہ کرے کہ بے حیائی وآبروباختگی کا یہ روح فرسا واقعہ آگے بڑھنے نہ پائے۔مسلمانوں کی تقاریب میں ایک اورغیراسلامی رواج اسراف وفضول خرچی کا ہے، مہمانوں کی ضیافت میں بھی بیجااسراف کا سلسلہ چل پڑاہے جبکہ بعض تقاریب میں محرمات جیسے بیانڈباجے ،فلمی گانوں یا غزلیات کے ریکارڈنگ بجانے اورکہیں گانے بجانے والے مردوعورتوں کا انتظام،آتش بازی وغیرہ میں مال کا ضیاع عام ہے ، یہ دوہرا گناہ ہے۔چونکہ ان کا ناجائزوحرام ہونا مسلم ہے،دوسرے اس میں اسراف کا گناہ ہے،اسراف اوربیجا خرچ سے بچنے کی ہدایت دیتے ہوئے اسراف کرنے والوں کو شیطان کا بھائی قراردیا گیاہے اورشیطان کے بارے میںفرمایا گیا کہ وہ اپنے پروردگارکا بڑانا شکرا ہے (بنی اسرائیل: ۲۷) جائزامورمیں حدشرعی سے تجاوزبھی اسراف( تبذیر) ہے۔ناجائزامورمیں مال کا خرچ کرنا کم ہویا زیادہ اس گناہ کی شناعت تو اور شدیدہے کہ اس میں حرام کا ارتکاب بھی ہے اور مال کاناجائز مصرف میں خرچ بھی۔آیت پاک کی روسے ناجائزوحرام اوربے حیائی کی اشاعت کے مرتکبین شیطان کے پیروکاراورشیطان ہی کی طرح’’ کفور‘‘ یعنی اللہ سبحانہ کے بڑے ناشکرے ہیں۔مذکورہ ولیمہ کی تقریب میںبے حیاء ڈانسروں کے رقص کے انتظام کی خبرکے ساتھ سوشیل میڈیا کے حوالہ سے ان بے حیاء ڈانسروں پرلاکھوں روپئے نثارکرنے کی اطلاع بھی گشت کررہی ہے۔یہ توبے حیائی وعریاں ڈانس کے شیدائیوں (شیطان کے بھائیوں)کا شیطانی عمل ہے ،پتہ نہیں انتظام کرنے والے بھی جوارشادباری کی روسے شیطان کے بھائی ہیں انہوں نے ان پرکیا کچھ نچھاورکیا ہوگا ،ان بے حیاء رقاصائوں کی آمدورفت ،ان کے قیام وطعام ،ناجائزوحرام رقص وگانے بجانے کی قیمت کتنی چکائی ہوگی اس طرح کتنے لاکھوں یا کروڑوں کا سرمایہ ان حرام کاموں میں گنوایا ہوگا۔العیاذ باللہ ۔ ایمان اورایمان کے تقاضے عزیزہوں توظاہرہے مسلمان کبھی بے حیائی کے قریب نہیں پھٹک سکتے،جائزامورمیں وہ جادہ اعتدال سے آگے قدم بڑھاکراسراف کے مرتکب نہیں ہوسکتے،ناجائزوحرام کاموں کے ارتکاب اوراس میں تھوڑاسا مال خرچ کرنے کا توکوئی تصور بھی نہیں کرسکتے۔