جلال بابا نگر کے سرکاری اردو میڈیم اسکول میں سہولتوں کا فقدان
حیدرآباد ۔ 3 ۔ جولائی : ( نمائندہ خصوصی ) : ہماری جمہوریت میں عجیب تماشے دیکھنے میں آتے ہیں ۔ ان کی نوعیت ایسی ہوتی ہے کہ انہیں دیکھ کر ہنسی نہیں آتی بلکہ دل خون کے آنسو روتا ہے ۔ آپ نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا کہ کوئی سرکاری اسکول بھی ایسا ہوسکتا ہے ۔ اسکول میں فرنیچر نام کی کوئی چیز نہیں ہے ۔ لیکن حیدرآباد شہر میں ایک اسکول اردومیڈیم ہے ۔ جلال بابا نگر اسکول جو تمام بنیادی سہولتوں سے محروم ہے ۔ کسی قوم کو ترقی ، خوشحالی کامیابی و کامرانی سے روکنا ہو تو کہا جاتا ہے کہ اس کی نوجوان اور نئی نسل کو حصول تعلیم سے روکدیا جائے ۔ اگر تعلیم نہ ہوگی تو وہ قوم خود بخود پسماندگی غربت افلاس اور جہالت سے جڑی تمام بیماریوں کا شکار ہوجائے گی ۔ ہر قوم ترقی کرنا چاہتی ہے ۔ خوشحال و باوقار زندگی گذارنا اس کا خواب ہوتا ہے ۔ قوم کا بچہ بچہ زیور تعلیم سے آراستہ ہو یہ اس کی خواہش ہوتی ہے ۔ نوجوان سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو یہ اس کی تمنا ہوتی ہے ہاسپٹل میں ان کے ڈاکٹرس نظر آئیں اور ہزاروں انجینئرس سائنسدانوں اور پیشہ وارانہ ماہرین کی صف میں اس کے نوجوان بھی کھڑے دکھائی دیں ۔یہ قوم کی دعائیں ہوتی ہیں ۔ ایسا ہی کچھ مسلمان بالخصوص پرانے شہر کے بسنے والے غریب مسلمان بھی چاہتے ہیں ۔ لیکن پرانا شہر میں کئی اسکولس ہیں جو بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں ۔ تنگ و تاریک عمارتوں میں متعدد اسکولس کام کررہے ہیں۔ ایک عمارت میں چار چار اسکول کام کرتے ہیں ۔ حد تو یہ ہے کہ ایک کمرہ میں دو اسکولس چلائیں جارہے ہیں ۔ ہم بات کررہے ہیں جلال بابا نگر اردو میڈیم اسکول ( راجندر نگر ) کی جس میں 300 سے زیادہ طلباء زیر تعلیم ہیں ۔ آپ کو حیرت ہوگی 300 طلبہ کے لیے صرف دو ٹیچرس ہیں اور ایک ہی بیت الخلاء ہے ۔ پینے کے پانی کی کوئی سہولت نہیں ہے اسکول کے اطراف گندگی بیان سے باہر ہے ہرطرف گندے پانی کچرے کے ڈھیر ہیں بچے اسکول تک بڑی مشکل سے پہونچ پاتے ہیں ۔ جب ہم نے اس کا معائنہ کیا تو دوران معائنہ ہماری ملاقات محمد غوث پاشاہ نامی ایک شخص سے ہوئی جن کی بچی اسی اسکول کی چوتھی جماعت میں زیر تعلیم ہے ۔ محمد غوث پاشاہ پیشہ سے خانگی ملازم ہیں ۔ انہوں نے ہم سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا اخبار سیاست تصویروں کے ساتھ حقائق پر مبنی رپورٹس شائع کرتا ہے ۔ لہذا آپ اس کلاس روم کو بھی ضرور دیکھیں جس میں میری بچی پڑھتی ہے ۔ یہ کہتے ہوئے ہمیں کلاس روم تک لے گئے جہاں بچے فرش پر بیٹھ کر پڑھ رہے تھے ۔ ان کے لیے کرسی بنچ ٹیبل اور دیگر کسی فرنیچرس کا انتظام نہیں ۔ مزید یہ کہ ٹیچر کے لیے بھی کوئی مناسب کرسی نہیں ۔ قارئین ! اس ضمن میں ہم نے اسکول کی انچارج میڈم سے بات کی انہوں نے بھی اعتراف کیا کہ واقع فرنیچر بالکل نہیں ہے بچوں کو زمین پر بیٹھا کر پڑھایا جارہا ہے ۔ انہوں نے کہا ہم اعلیٰ آفیسروں کے سامنے یہ بات رکھ چکے ہیں ۔ مگر ان کی جانب سے صرف یہی تسلی دی جارہی ہے کہ چند روز میں فرنیچر پہنچ جائے گا ۔ لیکن فرنیچر نہ ہونے کی وجہ سے بچے پریشانیوں سے دوچار ہیں ۔ بچے 6 تا 7 گھنٹے زمین پر بیٹھ کر پڑھتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے پیر بھی سن ہوجاتے ہیں ۔ اس وجہ سے اسکول میں دن بہ دن طالبات کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے ۔ اسکولوں میں تعلیم بیزاری کے ایسے ہی مظاہروں کی وجہ سے بہت سے بچے درمیان میں ہی تعلیم منقطع کردیتے ہیں ۔ کلکٹر حیدرآباد نے اب تک پرانا شہر کے کسی اردو میڈیم اسکول کا دورہ نہیں کیا ۔ پتہ نہیں ان بیچاروں کی کیا مجبوری ہے کہ ان کے قدم پرانا شہر کے سرکاری مدارس کی جانب نہیں بڑھتے ۔ بہرحال ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اور محکمہ تعلیمات کے عہدیدار خواب غفلت سے بیدار ہوں ۔ پراناشہر کے غریب طلبہ کے مستقبل سے کھلواڑ نہ کریں انہیں پڑھائی کے لیے اچھی عمارتیں ، فرنیچر اور اچھا ماحول فراہم کریں ۔۔