تعلیم کی اہمیت خطبات بھا ولپور کے حوالہ سے

خطبات بھاولپورکا نواں خطاب ’’عہد نبوی ﷺمیں نظام تعلیم ‘‘کے موضوع پر ہے،اس خطاب جلیل میں بڑی تفصیل کے ساتھ رسول پاک ﷺ کی اشاعت علم کے لئے جد وجہد اورآگے چل کر مدینۃ المنورہ میں علمی جامعہ ’’صفہ ‘‘کا قیام ،اسکے ایک رہائشی جامعہ ہونے ،اسکے تعلیمی نظم وانتظام اوراس دینی جامعہ میں علم حاصل کرنے والوں کی تفصیلات پیش کی ہیں۔دوران خطاب اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ مسلمانوں کو مختلف علوم سے لیس ہونا چاہیئے کیونکہ رسول اللہ ﷺ مختلف علوم کی اہمیت سے واقف تھے۔اورچاہتے تھے کہ مسلمان ان علوم کو سیکھیں پھر فرمایا کہ اس خصوص میں صرف ایک کتاب قرآن مجید کافی ہے ۔قرآن مجید کو باربار پڑھنے اوراس میں جن بے شمار علوم کا تذکرہ ملتاہے امت کے مختلف افراد اس میں اختصاص حاصل کریں،آگے لکھتے ہیں ’’بہرحال ہمیں صاف نظر آتا ہے کہ قرآن مجید میں مختلف علوم ہیں،اس میں تاریخ کا بھی ذکر ہے ،اسمیں ان علوم کا بھی ذکر ملتا ہے جنہیں ہم سائنس کا نام دیتے ہیں ،مثلا علم نباتات،علم حیوانات،علم حجر،علم بحر،علم ہیئت،یہاں تک کہ علم جنین کا ذکر ملتا ہے۔قرآن شریف میں علم جنین کی اتنی مفصل تشریحات آئی ہیں کہ انکا اس جدید ترین دور تک بھی اثرہورہا ہے ،اس میں کسی وقت آپ سے بیان کیا تھا کہ دوسال قبل پیرس میں ایک کتاب”Bible Quran and Science”چھپی ہے جو ایک مشہورسرجن بوکائی کی تصنیف ہے۔بوکائی کوبچوں کی ولادت کے علم سے دلچسپی ہے، وہ بیان کرتا ہے کہ علم جنین کے متعلق جو تفصیلات قرآن مجید نے دی ہیں ،انکا علم نہ یونان کے مشہورقدیم اطباء کو تھا اورنہ زمانہ حال کے یورپی لوگوں کو ہے، جنہوں نے سالہا سال تک اس موضوع پر ریسرچ کی۔ لیکن اب سے چودہ سوسال قبل ،ایک بدوی(صلی اللہ علیہ وسلم)اس کا ذکرکرتا ہے تو یقینا یہ انسان کا کلام نہیں ہونا چاہیے۔قرآن کی اسی بات سے متاثر ہوکر اب سے کوئی دوماہ پہلے بوکائی نے اپنے مسلمان ہونے کا بھی اعلان کردیاہے۔اسی طرح قرآن مجید میں ہمیں سمندری طوفان کا ذکر بھی ملتا ہے، جہاز رانی ،موتی اورمرجان کا بھی خاصا ذکرملتا ہے۔غرض میرا گمان ہے کہ رسول اللہ ﷺ چاہتے تھے کہ ہر مسلمان کو کچھ تو تعلیم بنیادی دی جائے جو لازمی ہواورمزید علم کے بارے میں بھی اسکے پاس کچھ نہ کچھ معلومات ہوں جو کسی بھی وقت اسکے کام آسکتی ہیں۔
حسب معمول اس خطاب با صواب کے بعد سوالات کے جوابات دئیے گئے جس میں مزید علم کی اہمیت اورعلم کے اعلی نکات قرآن مجید کی تلاوت اسکا ترجمہ وتفسیر پڑھنے کے فوائد پرروشنی ڈالی ہے،اس سوال کے جواب میں یہ بات لکھی ہے جس میں ملت اسلامیہ کے لئے ایک عظیم پیغام ہے وہ یہ کہ مسلمان مذاہب کا تقابلی مطالعہ کرکے انسانیت تک دین کا پیغام پہونچا ئیں۔لکھا ہے ’’لطیفہ کے طورپر آپ سے ذکر کرونگا کہ ایک فرانسیسی نن جو الحمدللہ مسلمان ہوچکی ہے اوراب حاجی طاہرہ کی نام سے جانی جاتی ہے،قبولیت اسلام کی اسکی کہانی بڑی دل افروز ہے، اس نے تعددازدواج سے متعلق ایک مرتبہ اعتراض کیا میں نے اسے جواب دیا کہ ’’اگراورلوگ مجھ پر یہ اعتراض کریں تو قبول۔ لیکن مجھے تم سے یہ اعتراض کی توقع نہیں تھی کیونکہ تمہارے اپنے عیسائی مذہب کے مطابق نن خدا کی بیوی کہلاتی ہے ،اس طرح تمہار ے شوہر کے تو لاکھوں بیویاں ہیں۔جبکہ تم صرف چاربیویوں کے باعث مجھ پر معترض ہواس بات کا اسکے دل پر اتنا اثرہوا کہ دوسال کی خط وکتابت کے بعد اس نے اپنا کانونٹ چھوڑدیا اورمسلمان ہوگئی‘‘ بہرحال دوسرے مذاہب سے واقفیت کے باعث بعض اوقات بڑا فائد ہ ہوتا ہے،اس موضوع پرسوالات کے جوابات بھی بڑے اسلامی ،تحقیقی اورعلمی نکات پر مشتمل ہیں،ڈاکٹرصاحب موصوف نے کتاب وسنت کی روشنی میں وسیع معنی میں علوم کی اہمیت کو سمجھا ہے اورملت اسلامیہ کو مختلف علوم میں ملکہ حاصل کرنے کی تلقین کی ہے۔
علم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتاہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے سب سے پہلی وحی میں علم وقلم کا ذکرفرمایا ہے، قلم کا تذکرہ اسلئے کیا گیا کہ وہ تعلیم کا ذریعہ ہے ،مختلف علوم کی نشرواشاعت میں قلم کا جو رول ہے وہ تسلیم شدہ ہے ،مذہبیات اوردیگرعلوم کا عظیم سرمایہ ہردورمیں قلم کی وساطت سے انسانوں تک پہونچ رہا ہے ،قلم وقرطاس کا سہارا نہ لیا جاتا تو قدیم علماء محققین کی نگارشات علمی سے فیضیاب ہونا ممکن نہ تھا،علوم ومعارف کے بیش بہا خزینوں سے اللہ سبحانہ نے قلم کی معرفت انسانوں کو نوازاہے لیکن وہ اسکا محتاج بھی نہیں،جب وہ چاہتا ہے توانسانی سینوں کو علوم ومعارف کا گنجینہ بنا دیتاہے،اسکی اعلی مثال سیدنامحمدرسول اللہ ﷺہیں ، لیکن علم کی اشاعت کا عام ذریعہ زبان وبیان اورقلم وقرطاس ہیں۔قرآن پاک میں اللہ سبحانہ نے’’ قلم ‘‘کی قسم بیان کی ہے ، ارشادہے ’’ن ‘‘قسم ہے قلم کی اورجو کچھ وہ لکھتے ہیں ( القلم:۱)قلم سے کونسا قلم مراد ہے اسمیں علماء کا اختلاف ہے بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ قلم سے مراد وہ خاص قلم ہے جس نے حکم الہی سے سارے عالموں کی تقادیرکو لوح محفوظ میں تحریرکیا۔اس قلم کی حقیقت اللہ سبحانہ کے سوا کوئی نہیں جان سکتا، اوربعض علماء کا خیال ہے کہ یہاں قلم سے مراد جنس قلم ہے اور اسی کی قسم کھائی جارہی ہے،علوم وفنون ، نظریات وافکارات اورعلمی تحقیقات ،نادروحکیمانہ نکات سے قلم وقرطاس کے سہارے کے بغیرزبان وبیان پر قدرت کو وسیلہ کو بناکر بندگان خداکو فیضیاب کیا جا سکتاہے لیکن اس کا فیضان زمان ومکان کی حدودوقیود میں محصورہو کررہ جاتاہے۔البتہ قلم کی طاقت ان حد بندیوں سے آزاد ہوکر اپنے پیام کو دوردراز علاقوں تک ایسے پہونچاتی ہے جیسے آسمان پر چھانے والے بادل اپنے قطرات باراں سے سوکھی زمینوں کو دوردراز علاقوں تک سیراب کرتے ہیں۔
قلم کی قسم کے ساتھ جو کچھ قلم لکھتے ہیں اسکی قسم بھی ارشادفرمائی گئی ہے اس لئے قلم قرطاس دونوں کا بڑاگہرا رشتہ ہے۔پھرقلم سے نکلنے والی ہر تحریر آبدارموتیوں جیسی نہیں ہوتی اورنہ ہر تحریر اس قابل ہوتی ہے کہ اسکو بوسہ دیا جائے اورآنکھوں سے لگا یا جائے ،ظاہر ہے قلم سے کاغذپر بکھرنے والی وہ تحریر جو خالق کائنات کی حمد وثناء میں ہو اوراس نے جو نعمتیں انسانوں کو اوردیگرخلائق کو بخشی ہیں انکا ایمان افروز تذکرہ ہو ،اس کائنات کو جن فطری نظاروں سے خلاق فطرت نے بھردیا ہے اورجو خلق خدا کو فائد ہ پہونچا رہی ہیں الغرض اس کائنات میں موجود فلکیاتی نظارے ،زمین وآسمان کی پہنائیوں میں جونادرئہ روزگار،دلکش مناظردلوں کو موہ لینے والے عجائبات قدرت سے پردہ ہٹارے ہیں ان کو قلم کی قوت سے قرطاس کو زینت بخشنے والی تحریرات قابل قدرہوتی ہیں ،باری تعالی کے اسماء وصفات اوراسکی اعلی طاقت وقوت ،اسکی بڑائی وکبریائی کے اسرار ورموزکے ایمانی تذکروں کے بعد جس ذات گرامی کا تذکرہ بیان کرنے کے لئے قلم کو وقف ہونا چاہئیے وہ عظیم ذات ہے جو ’’بعدازخدابزرگ توئی قصہ مختصر‘‘ کی مصداق ہے۔نبی رحمت سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی تعریف وتوصیف اورآپ ﷺ کو اللہ کی جناب سے عطاکردہ فضائل وکمالات ،محامدومحاسن کا ایمان افروز تذکرہ قلم کے لئے باعث صدعزوافتخارہوگا۔جن کے ذکرپاک سے دل روشن ہوتے ہیں ،آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں ،گمراہی کے اندھیرے چھٹ کر نورورشنی چھاجاتی ہے ،ویران چمنستانوں میں بہار آجاتی ہے ،جس تذکرہ کے بے نہایت برکات ہوں اورجن کے تذکرہ سے اللہ سبحانہ کی رحمتیں جلوہ بداما ں ہوجاتی ہیں اگرنوک قلم سے وہ قرطاس پر بکھر گئے ہوں اورپھرپڑھنے والوں کے دلوں میں اترگئے ہوں تو وہ نوک قلم بھی اس قابل ہے کہ اس کو سرآنکھوں پر رکھا جائے ،یقینا قلم کے وسیلہ سے دوسروں تک پہونچنے والی ایسی تحریرات کانوں کی راہ سے دلوں میں اترتی ہیں اورروح کو بالیدگی عطا کرتی ہیں،ایمانی کیفیات کو تازہ کرنے میں ایسی تحریرات موثررول اداکرتی ہیں،دنیا کے سارے علوم وفنون کا مرجع ذات الہی و ذات رسالت پناہی ہیں اسلئے پھر دنیا کے وہ سارے علوم وفنون جو انسانوں کے لئے مفید ہوسکتے ہیں نوک قلم سے نکلنے والا وہ سارا سرمایہ جو ان پر مشتمل ہووہ بھی قابل قدرہے ۔کتاب وسنت ہی وہ چشمہ فیضان ہیں جن سے سارے علوم وفنون کی نہریں نکلتی ہیں،انسان کے دین ودنیا دونوں کو سیرات کرتی ہیں، ڈاکٹرمحمدحمیداللہ رحمہ اللہ کی تحریرات جو علم کی اہمیت پر مشتمل ہیں انکا اگربغورمطالعہ کیا جائے تووہ ایسی ہی ایمان افروزاورحقائق کی دنیا میں عملی جہت سے رہنمائی کرنے والی ہیں۔امت مسلمہ کو ان سے بھر پوراستفادہ کرنا چاہئیے ۔