تعلیم کو زعفرانی رنگ دینے کی کوششیں

دل تو چمک سکے گا کیا ‘ پھر بھی ترش کے دیکھ لیں
شیشہ گران شہر کے ہاتھ کا یہ کمال بھی
تعلیم کو زعفرانی رنگ دینے کی کوششیں
مرکز میں نریندر مود ی کی قیادت میں این ڈی اے حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے سماجی سطح پر تبدیلیاں لانے کی کوششیں نت نئے انداز سے شروع کردی گئی ہیں۔ خاص طور پر تعلیم کے شعبہ کو زعفرانی رنگ دینے کی کوششیں تیز ہوگئی ہیں۔ نصاب تعلیم میں تبدیلیوں کیلئے منصوبہ بندی کی جاچکی ہے اور ان منصوبوں کو قطعی شکل دیتے ہوئے ان کو ہندو مذہبی رنگ دینے کیلئے فرقہ پرستی عناصر کمر کس چکے ہیں۔ اب تو تاریخی حوالوں کو بھی ہندو مذہبی رسومات کے مطابق بدلنے کیلئے بھی منصوبے بن رہے ہیں۔ فرقہ پرست ذہنیت رکھنے والے عناصر کو تعلیمی اداروں کی ذمہ داریاں سونپی جا رہی ہیں اور وہ یہ ذمہ داریاں سنبھالتے ہی اپنے عزائم ظاہر کرنے لگے ہیں۔ جس طرح سے پرسار بھارتی کے صدر نشین کے عہدہ پر اپنے مطلب کی شخصیت کو ذمہ داری سونپنے کا کام حکومت نے کیا تھا اسی طرح سے پروفیسر سدرشن راؤ کو انڈین کونسل برائے تاریخی ریسرچ کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے ۔ پروفیسر راؤ نے اپنے عہدہ سنبھالنے کے بعد ہی سے اپنے خیالات واضح کرنے شروع کردئے تھے ۔ وہ تاریخی ریسرچ اور اس کے نتائج کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اب ریسرچ کی بجائے ہندو مذہبی روایات کی بنیاد پر قدیم دنیا کے حالات کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے اس کیلئے کسی ریسرچ یا تاریخ کے دوسرے حوالوں کی ضرورت نہیں ہے ۔ ان کا یہ ادعا بھی ہے کہ ہندوستان نے پانچ ہزار سال قبل وہ سب کچھ حاصل کرلیا تھا جو آج کی دنیا میں ترقی کی علامت سمجھا جاتا ہے ۔ ان کے خیال میں ہندو مذہبی روایات اور رسوم کو فروغ دیتے ہوئے نہ صرف قدیم تاریخی آثار کو سمجھا جاسکتا ہے بلکہ اس سے ترقی کے عمل کو بھی آگے بڑھایا جاسکتا ہے ۔ اس طرح سے پرسار بھارتی نے اپنے وجود میں آنے کے بعد پہلی مرتبہ آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کی دسہرہ تقریر کو راست ٹیلی کاسٹ کیا تھا اور پھر صدر نشین پرساد بھارتی کی جانب سے اس اقدام کی پرزور مدافعت بھی کی گئی تھی ۔ یہ مثالیں ہیں کہ کس طرح سے ہندو مت کو تھوپنے کی کوششوں میں مودی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد تیز تر ہوگئی ہیں۔ زیادہ توجہ نوجوان ذہنوں کو متاثر کرنے تعلیم کے شعبہ پر دی جا رہی ہے ۔
ہندو مت کو فروغ دینے کی کوششوں اور ایسے اقدامات کرنے والے عہدیداروں کو وزیر اعظم نریندر مودی کی مکمل تائید و حمایت حاصل ہے ۔ خود وزیر اعظم پروفیسرسدرشن راؤ کے خیالات سے متفق دکھائی دیتے ہیں جو ایک مضحکہ خیز عمل ہے لیکن اس کے منفی اثرات بہت شدید بھی ہوسکتے ہیں۔ اس سے ہندوستانی سماج میںیکجہتی کو نقصان ہوسکتا ہے اور اس کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوسکتی ہے ۔ ان کوششوں کے دوران مرکزی حکومت نے آئندہ سال سے نصاب تعلیم میں بھی تبدیلیاں لانے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔ ابھی یہ واضح نہیں ہوسکا ہے کہ یہ تبدیلیاں کس نوعیت کی ہونگی لیکن آثار و قرائن اس بات کے اشارے دیتے ہیں کہ یہ سب کچھ مذہبی فرقہ پرستی اور تعلیم کے شعبہ کو زعفرانی رنگ دینے کی کوششوں پر ہی مبنی ہوگا ۔ نظام تعلیم میںبہتری کیلئے اگر کسی طرح کی تبدیلی لائی جاتی ہے تو اس کا سبھی گوشوں کی جانب سے خیر مقدم کیا جائیگا لیکن اس کے ذریعہ مذہبی تعصب کو نصاب کا حصہ بناتے ہوئے نوجوان ذہنوں اور طلبا کو متاثر کیا جائے تو پھر اس کے منفی اثرات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ۔ ایسا کرنے خود ملک کے مفاد میں نہیں ہوسکتا ۔ مودی حکومت ایسے حقائق کو سمجھنے کی جائے آر ایس ایس کے اشاروں پر کام کرتے ہوئے اس کے عزائم کی تکمیل میں جٹ گئی ہے ۔ اسے آر ایس ایس کی خوشنودی کی فکر ہے اور ملک کے مستقبل اور سماج کی بہتری کی فکر لاحق نہیں ہے ۔ ایسی کوششوں اور سازشوں کو قوم پرستی کی مہم کا حصہ بھی نہیں کہا جاسکتا کیونکہ اس سے سماج میں اتحاد و اتفاق پیدا ہونے کی بجائے نفاق کو فروغ مل سکتا ہے ۔
بی جے پی کے اقتدار والی دو ریاستوں میں گذشتہ سال ہی سے ایسی کتابیں شروع کردی گئی تھیں جن میں نوجوان ذہنوں میں فرقہ پرستی کا زہر گھولا جا رہا تھا ۔ اب یہ کوشش قومی سطح پر شروع ہونے والی ہے ۔ ان دو ریاستوں میں دینا ناتھ بترا کی کتابیں پڑھائی جا رہی ہیں جن میں تاریخ کو توڑ مروڑ کر اپنے ڈھنگ سے اپنے مفاد میں پیش کرنے کا ہنر موجود ہے ۔ دو ریاستوں میں تجربہ کے بعد بترا خود چاہتے ہیں کہ ان کتابوں کو سارے ملک میں رائج کیا جائے ۔ حکومت بھی ایسا لگتا ہے کہ فرقہ پرستوں کے ہاتھوں میں نہ صرف کھیل رہی ہے بلکہ ان کی مکمل سرپرستی بھی کر رہی ہے جس کے نتیجہ میں شعبہ تعلیم کو زہریلے رنگ میں رنگنے کی کوششیں شروع ہوگئی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سماجی سطح پر اس کی شدید مخالفت کی جائے اور حکومت پر اثر انداز ہوا جائے کہ وہ تعلیم کے شعبہ کو فرقہ پرستی کے رنگ میں رنگنے کی کوششیں ترک کردے۔