یہ بات بڑی عجیب سی لگتی ہے کہ وہ قوم جس کو اپنی فصاحت و بلاغت پر بڑا ناز تھا اور جو اپنے آپ کو سلیقہ گفتگو کی ماہر اور دنیا کی ساری قوموں کو گونگا سمجھتی تھی، اس میں لکھنے پڑھنے کا شدید فقدان پایا جاتا تھا۔ قریش جو سرزمین حجاز کا ایک بڑا اور ممتاز قبیلہ تھا اور ان کی زبان بھی ٹکسالی زبان سمجھی جاتی تھی، اس میں علامہ بلاذری کے مطابق صرف سترہ (۱۷) آدمی لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ لکھنے پڑھنے کا اتنا رواج بھی کوئی عہد قدیم سے نہ تھا، بلکہ کچھ ہی عرصہ پہلے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد شباب سے شروع ہوا تھا۔ اس سے قبل عربی صرف بولی جانے والی زبان تھی، تحریر سے اس کا کوئی تعلق نہ تھا۔ عرب میں لکھنے پڑھنے کا یہ معمولی سا رجحان بھی حرب بن امیہ کے زمانے اور اس کے گھر سے شروع ہوا۔ اس کا سبب یہ ہوا تھا کہ ایک عراقی جو علاقۂ حیرہ کا رہنے والا تھا، مکہ اور بنت حرب سے شادی کرلی اور اس نے اپنی سسرال کے افراد کو لکھنا پڑھنا سکھایا۔
اس آغاز کتابت کے چند سال بعد قرآن پاک کا نزول شروع ہوا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو پہلی وحی آئی تو اس کا پہلا لفظ ہی ’’اقرأ‘‘ تھا۔ پھر اسی وحی میں علم و تعلیم اور قلم کا بھی ذکر ہے اور قلم ہی وہ چیز ہے، جس کے ذریعہ سے علمی اور تجربی وراثت ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہوتی ہے اور قلم ہی تہذیب و ثقافت اور ارتقاء تمدن کے لئے وسیلہ بنتا ہے۔ نزول قرآن کی اس پہلی وحی سے ہی اسلام کے علمی رجحان کا اندازہ ہو جاتا ہے۔
علم اور لکھنے پڑھنے کی اس اہمیت کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر اور کون سمجھ سکتا تھا، چنانچہ اسی کا نتیجہ تھا کہ جب دوسری وحی آئی تو اس کے تین دن بعد حضرت خالد بن سعید رضی اللہ تعالی عنہ (حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بہنوئی) مشرف بہ اسلام ہوئے۔ یہ لکھنا پڑھنا جانتے تھے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو فوراً کاتب وحی مقرر فرمادیا۔ چنانچہ قرآن کے کاتب اول ہونے کا اعزاز ان ہی کو حاصل ہوا، پھر بعد میں تقریباً ۴۴،۴۵ کاتبان وحی کے نام ہمیں ملتے ہیں۔
تبلیغ اسلام کے ابتدائی زمانے میں جو چند افراد مشرف بہ اسلام ہوئے، ان میں اک حضرت ارقم بن ابی الارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے۔ ان کا مکان جو ’’دارارقم‘‘ کے نام سے مشہور ہے، اسی مکان کو عہد رسالت کی پہلی درسگاہ بننے کا شرف حاصل ہوا۔ یہاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تریف فرما ہوتے تھے اور دائرۂ اسلام میں داخل ہونے والوں کو تعلیم ارشاد فرماتے تھے۔ ام القریٰ کے رسول امی کی قائم کردہ حجاز میں یہ پہلی درسگاہ تھی۔ دار ارقم کی حفاظت مسلمان چودہ سو سال سے کرتے چلے آئے تھے، لیکن افسوس کہ اب اس کو مسمار کرکے وہاں سڑک بنادی گئی، حالانکہ سڑک اس کو بچاکر بھی نکالی جاسکتی تھی۔
علم کی اہمیت کے سلسلے میں ایک نہایت قابل غور بات یہ بھی ہے کہ تخلیق آدم علیہ السلام کے وقت مقصد تخلیق ’’خلافت‘‘ بتادیا گیا اور پھر خلافت کے لئے معیار قابلیت علم ہی قرار دیا گیا اور پھر علم ہی اولاد آدم کا طرۂ امتیاز قرار پایا۔
بیعت عقبہ میں مشرف بہ اسلام ہونے والے اہل مدینہ کی خواہش پر جب حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالی عنہ کو مدینہ بھیجا گیا تو آپ نے وہاں پہنچ کر تعلیم و اشاد کا جو مرکز بنایا ہوگا، گمان غالب یہی ہے کہ یہ تاریخ اسلام کی دوسری درسگاہ ہوگی اور تیسری درسگاہ ہجرت نبوی کے بعد مسجد نبوی میں قائم ہوئی۔ یہ عہد رسالت کی سب سے بڑی درسگاہ تھی۔ یہاں دو قسم کے طالب علم تھے، ایک تو وہ جو یہاں سے تعلیم حاصل کرکے روزانہ اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے تھے، یہ گویا غیر مقیم طلبہ تھے۔ دوسرے مقیم طلبہ تھے، جو شب و روز یہیں رہتے تھے۔ تعلیم کے لئے مسجد نبوی کے ساتھ ’’صفہ‘‘ کی تعمیر ہوئی، جو ایک پلیٹ فارم یا چبوترا سا تھا۔ اس پر ایک سائبان ڈال دیا گیا تھا۔ یہ صفہ دن کو درسگاہ کے طورپر اور رات کو طلبہ کی اقامت گاہ کے طورپر استعمال کیا جاتا تھا۔ مقیم طلبہ کے کھانے کی ذمہ داری رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لے رکھی تھی اور حضور ہی اس درسگاہ کے پرنسپل تھے۔ اس طرح یہ ادارہ اس وقت کی اقامتی جامعہ تھا۔ صوفیہ کرام کے خانقاہی نظام کا ماخذ بھی یہی ہے۔
اس کے بعد عہد رسالت میں جو مسجد بھی بنتی گئی، اس میں تعلیم کا یہی انتظام ہوتا رہا اور یہ روایت ایسی قائم ہوئی کہ بعد کے ہر دور اور ہر علاقے میں مسجد کے ساتھ ایک درسگاہ ضرور بنتی گئی۔ الا ماشآء اللہ۔ جو اسیران بدر لکھنا پڑھنا جانتے تھے، ان کا فدیہ یہ مقرر کیا گیا تھا کہ وہ مدینہ کے دس دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھادیں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو کتاب نازل ہوئی، اس کا معروف نام ’’قرآن‘‘ ہے، یعنی بہت زیادہ پڑھی جانے والی کتاب۔ اس کی تلاوت کو سب سے افضل قرار دیا گیا، اس کے ایک ایک حرف پر دس دس نیکیوں کی بشارت دی گئی۔ نماز کی رکعتوں میں سورۂ فاتحہ کے علاوہ اس کی کم از کم تین چھوٹی آیتیں پڑھنا فرض قرار دیا گیا، اس طرح ہر مسلمان کو اس کی کم سے کم بارہ آیتیں زبانی یاد کرنے کا پابند کردیا گیا، جو چار رکعتوں والی نماز میں پڑھی جاسکیں۔ چنانچہ مسلمان اس کتاب کو زیادہ سے زیادہ پڑھتے ہیں، لاکھوں مسلمان ہر دور میں پورا قرآن پاک حفظ کرتے رہے ہیں۔ رمضان کا پورا مہینہ دنیا کے سارے مسلمان نزول قرآن کا جشن مناتے ہوئے تراویح میں قرآن کی قراء ت و سماعت کا اہتمام کرتے ہیں۔ مساجد اور محافل میں نماز تراویح پڑھی جاتی ہے۔ غم و مسرت کی متعدد تقریبات میں قرآن خوانی ہوتی ہے۔ یہ سارا اہتمام حکمت سے خالی نہیں ہے، اس میں درسی اور تعلیمی پہلو بھی شامل ہے۔
یہ تو تلاوت کا معاملہ تھا، پھر اس پر غور و فکر اور تدبر کی تلقین کی گئی۔ جب اس کا پڑھنے والا اس میں غور و فکر کرتا ہے تو اس پر علوم و معارف کے دفتر کھلتے چلے جاتے ہیں۔ اسی قرآن سے موتی چن چن کر مسلمانوں نے کتنے ہی نئے علوم و فنون کی تدوین کرڈالی۔ علم تفسیر و اصول تفسیر، علم حدیث و اصول حدیث، علم فقہ و اصول فقہ، صرف و نحو، علم الفرائض، تجوید، تقویم، نجوم، فلکیات، سیاسیات، معاشیات، سماجیات، ابلاغیات، علم حساب، علم بدیع، علم معانی، علم کلام، تاریخ، جغرافیہ، علم تصوف و احسان، علم تطہیر و تزکیہ، صنعت و حرفت، عدل و قانون اور علوم حرب و ضرب ایجاد ہوئے۔ ان علوم کے درختوں کی سیکڑوں شاخیں نکلیں۔ کیا چودہ سو سال پہلے ان علوم کا کہیں ذکر ملتا ہے؟۔