تعلیمی قابلیت

مرکز میں بی جے پی کی حکومت اور اس کی تنگ نظر قیادت کوئی نہ کوئی بھیانک قومی سنگین مسئلہ کھڑا کرے گی۔ اس کے آتے ہی چھوٹے چھوٹے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ نریندر مودی کی قیادت میں آر ایس ایس، شیوسینا اور دیگر ہندوتوا طاقتوں کو اپنے طرز کی سیاست اور کام کاج کرنے کی کھلی چھوٹ ملے گی۔ وزیر فروغ انسانی وسائل کی حیثیت سے بی جے پی راجیہ سبھا رکن اور حالیہ لوک سبھا انتخابات میں امیتھی سے شکست کھانے والی امیدوار سمرتی ایرانی کو جب نریندر مودی کابینہ میں شامل کیا گیا تو اس اعلیٰ قومی تعلیمی اُمور کی نگرانی کرنے والے قلمدان کی ذمہ داری ایک 12 ویں جماعت پاس خاتون کے تفویض کرنے پر زبردست تنقیدیں ہورہی ہیں۔ بی جے پی اور کانگریس کے درمیان لفظی جنگ کا سلسلہ حکمراں پارٹی کے لئے کئی موقعوں پر لاجواب بھی کررہا ہے۔ ان کی تعلیمی قابلیت کے خلاف کانگریس نے احتجاج شروع کیا ہے۔

اس تنازعہ میں دہلی یونیورسٹی بھی شامل ہوگئی۔ سمرتی ایرانی کے تعلیمی ریکارڈس کو افشاء کرنے کے الزام میں جب وائس چانسلر نے عہدیداروں کو معطل کیا تو وزیر فروغ انسانی وسائل کی حیثیت سے سمرتی ایرانی نے دہلی یونیورسٹی سے اپیل کی کہ ان عہدیداروں کی معطلی واپس لی جائے۔ دہلی یونیورسٹی نے محسوس کیا کہ معطلی کی کارروائی سے دوسرا تنازعہ پیدا ہوسکتا ہے تو وائس چانسلر نے یونیورسٹی کے کسی بھی عہدیدار کو معطل کئے جانے کی تردید کی۔ سمرتی ایرانی کو اہم قلمدان دئے جانے کے خلاف ہندوستانی سیاست کے ایک گوشے نے کھل کر مخالفت کی ہے تو سوشیل میڈیا پر ان کا تمسخر بھی اُڑایا جارہا ہے۔ بی جے پی کی نئی حکومت کی غلطیوں کا آغاز سمرتی ایرانی کے قلمدان سے ہوا ہے تو اس پر زبردست قومی بحث بھی چھڑ گئی ہے۔ قومی تعلیمی شعبہ کی اہم ذمہ داری کسی ایسی شخصیت کے سپرد کی جانی چاہئے جس کا تعلیمی، سماجی اور سیاسی مرتبہ محترم ہو۔ تیراکا لباس پہن کر اپنی زندگی یا کریر کا آغاز کرنے والی ایک خاتون کے تعلق سے سیاسی گوشوں میں جس طرح کی سرگوشیاں ہورہی ہیں، یہ وزارت فروغ انسانی وسائل کے قلمدان کے شایانِ شان نہیں ہے۔ بی جے پی کے عقبی دروازے سے قومی عہدہ تک پہنچنے والی سمرتی ایرانی کے ذاتی اور شخصی معاملوں سے ہندوستانیوں کو کوئی لینا دینا نہیں ہے، مگر انھیں قومی اداروں کا انتظام ان ہاتھوں کے سپرد کردیا جائے جن پر انگلیاں اُٹھ رہی ہیں تو حکمراں پارٹی کو اپنے فیصلہ پر نظرثانی کرنے میں کوئی عذر یا حل تلاش کرنے کی ضرورت پیش ہونی چاہئے۔ سوال یہ بھی اُٹھا ہے کہ کسی کو اگر جائز عزت دی جائے تو یہ اچھی بات ہے اور اگر ضرورت سے زیادہ عزت دے دی جائے تو یہ نقصاندہ ثابت ہوسکتا ہے۔

عوام نے بی جے پی کو شاید ضرورت سے زیادہ عزت دے دی ہے تو اس کا نقصان بھی عوام کو ہی اُٹھانا پڑے گا۔ سوال یہ بھی ہے کہ بی جے پی کی قیادت اس طرح کے تنازعات کے باوجود کتنے ظرف کے ساتھ حکمرانی کے فرائض انجام دے گی؟ عوام نے بی جے پی کو ووٹ دے کر کئی ایک قومی معاملوں میں خود کو یتیم بنالیا ہے تو پھر ان کے سر پر مودی حکومت ہاتھ رکھے یا نہ رکھے، اس کی ایسی ہی غلطیاں ہوتی رہیں گی اور سزا کا سوال ہی نہیں پیدا ہوگا تو سمرتی ایرانی کا بھی موجودہ قلمدان برقرار رہے گا۔ نریندر مودی اپنے بیانات کے لفظوں میں ہندوتوا کے رنگ کے ساتھ جمہوری قوت کا سہارا لے رہے ہیں تو حکومت کو کمزور ہونے کا کوئی موقع بھی نہیں دیں گے، مگر کانگریس نے خود کو تسلی دینے کے لئے مودی حکومت کی غلطیوں کی نشاندہی کرنا شروع کیا ہے، لیکن وہ سمرتی ایرانی کی تعلیمی قابلیت کا مسئلہ اُٹھاکر سیاسی فائدہ حاصل نہیں کرسکے گی۔ کیونکہ خود کانگریس کے دو سینئر ارکان ڈگ وجئے سنگھ اور منیش تیواری نے سمرتی ایرانی کی مدافعت کی ہے۔ ان کی نظر میں سیاسی ذمہ داری ادا کرنا ایک الگ معاملہ ہوتا ہے تو تعلیم، انٹلیجنس اور ادب کی قابلیت پیدا کرنا ایک الگ عنوان ہے۔ کسی بھی حکومت پر تنقید کی جاتی ہے تو مسائل پر کی جائے، اس کی خصوصی رعایتوں اور مراعات پر نہیں۔ نریندر مودی نے اپنی کابینہ میں جن قائدین کو شامل کیا ہے، ان میں سے بعض قائدین کے ساتھ سیاسی رعایت کی گئی ہے، ان میں سمرتی ایرانی بھی شامل ہیں۔ تعلیمی قابلیت کا جب سوال اُٹھتا ہے تو بی جے پی کو بھی صدر کانگریس سونیا گاندھی کی تعلیمی قابلیت پر اُنگلی اُٹھانے کا موقع ملے گا جن کے بارے میں سبرامنیم سوامی نے پہلے ہی سونیا گاندھی کی تعلیمی قابلیت کو آشکار کردیا ہے۔ اگر کانگریس اس معاملہ کو زیادہ متنازعہ بنانے سے گریز کرے گی تو پھر جیت سے پہلے ہی ہار، اس کے لئے ایک اور دھکّہ ہوگا۔