مملکت سعودی عرب میں بدعنوانی کو ختم کرنے کے نام پر بغاوت کو کچلنے کی زور شور سے تیار ی کی جارہی ہے اور اس کے لئے انتظامیہ مزید شہزادوں‘ منسٹرس‘ مشہور صنعت کاروں کے درجنوں اکاونٹ کو مہر بند کرنے کے اقدامات اٹھارہی ہے ‘ برسراقتدار طبقے کے قریبوں کا کہنا ہے کہ حکومت آنے والے دنوں میں بغاوت کے پیش نظر مزیدگرفتاریاں انجام دے سکتی ہے۔بدعنوانی کی روک تھام کے لئے سعودی اہلکاروں کی جانب سے ایک ہفتہ قبل شروع کی گئی مہم جس کو 32سالہ ولیعہد محمد بن سلمان کے منصوبہ کا حصہ قراردیاگیا ہے جو تیل کے تاریخی ذخائر پر انحصار کرنے کے بجائے مزید بیرونی سرمایہ کاری کو راغب کرنے پر کام کررہے ہیں۔
پرنس الولید بن طلال
پرنس الولید بن طلال کی مغربی برانڈس جیسے سٹی گروپس ‘ ٹوئٹر ‘ ایپل پر مضبوط گرفت ہے۔ انہوں نے رائیل اسٹیٹ‘ ہاسپٹلیٹی‘ اور سیر وتفریح کے شعبوں میں بھی سرمایہ کاری کی ہے۔ وہ امدادی کاموں کے لئے بھی کافی مشہور ہیں۔
پرنس مطیب بن عبداللہ
پرنس مطیب بن عبداللہ ممکن ہے کہ ولیعہد کے مد مقابل آسکتے ہیں کیونکہ وہ مرحوم کنگ عبداللہ کے پسندیدہ بیٹے تھے۔ انہیں بھی گرفتار کرتے ہوئے ان کے پاس سے شاہی خاندان گارڈ کی سربراہی سے بھی سبکدوش کردیاگیا ہے جو واحد شعبہ تھا جس پر مملکت کی حفاظت کی ذمہ داری تھی اور وہ ولیعہد کی دستر س سے باہر تھا
پرنس ترکی بن عبداللہ
پرنس ترکی بن عبداللہ نے ریاض کے نائب گورنر مقرر کئے جانے کے بعد 2013سے 2015کے درمیان میں ملٹی بیلن ڈالرس کے ٹرانزٹ پراجکٹ کے قیام میں اہم رول اداکیاتھاجو سعودی کے درالحکومت ریاض میں 2019تک پائے تکمیل کو پہنچے گا۔ ان پر الزام ہے کہ انہو ں نے اپنی ذاتی کمپنیوں کو کنٹراکٹ فراہم کرنے کے لئے اپنے اثر رسوخ کا استعمال کیا۔
پرنس ترکی بن ناصر
پرنس ترکی کے پاس تقریبا200شانداراور مہنگی کاریں ہیں ‘ ان کا جٹ اور متضاد گھروں کا بیرولی ہلز.‘ بارسیلونہ‘ اسپین او رلندن میں کاروبار ہے اس کے باوجود میٹرولوجی اور ماحولیات کے وزیر کی حالت اب خراب ہوگئی ہے۔
پرنس فہد بن عبداللہ بن محمد
پرنس فہد سال 2013میں بحریہ کے بعد ڈپٹی ڈیفنس منسٹر مقرر کئے گئے ۔ انہیں چارماہ قبل ہی بدلہ گیا تھا ۔ ان کو ہٹانے کی کوئی وجہہ نہیں بتائی گئی ہے
عادل فقیہہ
فقیہہ معیشت اور منصوبہ سازی کے منسٹر تھے۔ انہو ں نے جدہہ کا مئیروزیر لیبر اور صحت پر بھی خدمات انجام دئے ہیں۔
خالد تواجیری
تواجیری نوسالوں تک سعودی کی شاہی عدالت کے سربراہ ‘ انہوں نے کنگ عبداللہ کے گیٹ کیپر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دئے ہیں۔
ابراہیم اساف
اساف پچھلے بیس سالو ں سے سعودی کے فینانس منسٹر تھے۔ انہو ں نے سعودی عربیہ کے لئے بڑے اور حساس معاشی مسائل کو حل کیا اور کاروبار کو انجام دیا ہے۔
بکر بن لادن جدہ کی سعودی بن لادن گروپ کے چیرمن او رگروپ کے سب سے بڑے شیئر ہولڈ ر بھی ہیں ان کے پاس23.58فیصد شیئر موجود ہیں
محمد الطوبیشی
طوبیشی غلط وجوہات کی بناء پر سرخیوں میں تھے۔ انہوں نے مبینہ طور پر ایک صحافی کو تمانچہ رسید کیاتھا اور وہ شاہی عدالت کے پروٹوکال ہیڈ کے عہدے سے برطرف کردئے گئے۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ طوبیشی نے ملازمت سے ہاتھ دھویاہے‘ سال2013میں جب کنگ عبداللہ کی وہ خدمت میں تھے‘ انہیں ان کے عہدے سے برطرف کردیاگیاتھاپھر کچھ ماہ بعد میں انہیں دوبارہ بحال کردیاگیا۔
امر الدباگ
سعودی عربیہ کے جنرل سرمایہ کاری اتھاریٹی( ایس اے جی ائی اے) کے ایک صنعت کار‘ ماہرمعاشیات اور ایک مصنف بھی ہیں۔ وہ جدہ کی الدباگ گروپ کے سی ای او بھی ہیں۔ الدباگ اسٹار فاونڈیشن کی بانی ہے جو غیرمنافع بخش ادارہ ہے جو بے بس او رمجبور بچوں کی ایم او او سی کورسس میں مدد کرتا ہے
ولیدبن ابراہیم الابراہیم
ولید الابراہیم سعودی عربیہ کے صنعت کار ہیں اور میڈایسٹ براڈکاسٹ سنٹر( ایم بی سی) کے چیرمن بھی ہیں۔ وہ میڈل ایسٹ میں سب سے پہلے کامیاب کمرشیل ٹی وی چیانل کے مالک بھی ہیں۔ خبرہے کہ سال2017کے اینٹی کرپشن قانون کے تحت نومبر 4کے روز ان کی بھی گرفتار ی عمل میں ائی ہے۔ قبل ازیں انہو ں نے محمد سلمان کو ایم بی سی ٹی وی اسٹیشن فروخت کرنے سے انکار کردیاتھا۔
خالد الملھیم
ملھیم سعودی عربیہ ائیرلائنس میں ڈائرکٹر جنرل تھے ‘ جس کو سعودی کی قومی ائیرلائنس بھی کہاجاتا ہے جس کا تعلق جدہ سے ہے
سعودالدواش
سابق چیف ایکزیکیٹو برائے سعودی ٹیلی کام۔ ایس ٹی سی کی موبائیل فون پر سے اجارہ داری اس وقت ختم ہوگئے جب اتحاد اتیسلاد کو دوسرے کام سونپا گیا۔ اپریل2017میں ان کی اجارہ داری محدود ٹیلی فون سروس کے پاس ختم ہوگئی اس کے بعد بحرینی بیٹلوکو اتحاد کی کامیابی ہوئی جس کو دوسرا لائنس حکومت کی جانب سے جاری کیاگیااس کے علاوہ مذکورہ کمپنی پری پیڈ کارڈس اورساوا کال بھی تیار کرنے لگی جو سعودی عرب میں کافی مقبول ہے۔
صالح عبداللہ کامل
سعودی عرب کے کروڑ پتی۔ ان کے پاس2.1بلین امریکی ڈالر کے اثاثے جات ہیں۔ وہ ڈالاح اور باراکا گروپ کے چیرمن بھی ہیں۔ میڈل ایسٹ کے بڑے کاروباریوں میں سے ایک ہیں
محمد حسین علی العمودی
العمودی اتھوپیائی او رسعودی عربیہ کے کروڑ پتی صنعت کار ہیں۔ سال 2016فوربیس کے اندازے کے مطابق ان کی ذاتی ملکیت10.9بلین امریکی ڈالر تھی وہ ایتھوپیا کے سب سے امیر اور دنیا کے دوسرے نمبر کے امیرترین سعودی تاجر بھی کھلائے جاتے ہیں۔
العمودینے سویڈین او رموروکو میں تیل کے کنویں خریدنے سے قبل کنسٹرکشن اور رائیل اسٹیٹ میں قسمت آزمائی کی تھی۔ وہ ایتھوپیا میں سب سے بڑے بیرونی سرمایہ کار اور سویڈین میں کے سب سے بڑے سرمایہ کار ہیں
You must be logged in to post a comment.