دنیا میں کوئی چیز بھی بیکار نہیں ہے
یہ سچ ہے تری بات سے انکار نہیں
جو مفت میں دیتے تھے دوادرد محبت
دکان پہ لکھا رکھا ہے ادھار نہیں ہے
سودا تو سچا رکھا ہے بازار میں اس نے
اس کو یہ شکایت کہ خریدار نہیں ہے
اتائی حکیموں کی نہ تشہیر ہوجس میں
ایسا تو کوئی کوچہ و بازار نہیں ہے
معجون فلک سیر بناتا ہے وہ گھر میں
افلاک کی لاتا ہے وہ سیار نہیں ہے
نباض بھی ایسا ہے کہ دکھتی ہوئی رگ پر
جب ہاتھ رکھے ہے تو بیمار نہیں ہے
بے رنگ دیواروں پہ لکھا نام ہے اس کا
تشہیر سے خالی کوئی دیوار نہیں ہے
بدنام زمانے میں بڑا نام ہے اس کا
وہ محرم حکمت ہے حمار نہیں ہے
٭٭٭٭٭