تسکینِ دلِ سرورِ کونین ؐسیدہ ءِ کائناتؓ

منیر احمد ملک مرسلہ : حبیب محمد بن عبداللہ رفیع المرغنی

ازل سے میری یہ خواہش رہی کہ روحِ رسولِ دوسرا سیدۃ النساء فاطمۃ الزہرا اور ابوتراب سیدنا علی المرتضيٰ رضی اللہ عنہما کے در پہ محبت کی زباں وا کروں اور اُن کی مدح نگاری کے شرف کے حصول کے ساتھ اس میں صرف ہونے والے خوش بخت لمحوں کو اپنی نجات کا ساماں بنائوں۔اس بزم دل افروزمیں میری نگاہیں ان عظیم شخصیات کے قدموں کی دھول میں عقیدت کے پھول اور ارادت کی کلیاں نذر کرنے کو لائی ہیں جنہوں نے انسان کو شرفِ انسانیت سے ہی نہیں نوازا بلکہ پوری انسانیت کو ان پہ ناز ہے۔ میں اس امر سے بے خبر نہیں کہ اِن قدسی صفت ہستیوں کی الفت کے بازار میں مَیں بنت نیل کی طرح سُوت کی چند تاریں لے کر حاضر ہورہا ہوں۔ بلاشبہ … ہزار جان گرامی فدائے آلِ رسول …
مگر میں کہاں اور ثنائے آل رسول ﷺکہاں! میرے قلم میں اتنی سکت اور زباں کو یارا ہی نہیں کہ میں اِن کی محبت کی سُندرتا کو الفاظ کا پیراہن پہناسکوں۔ پس عقیدت کے چند پھول، ارادت کی چند کلیاں، ذہنِ رسا کی چند تصویریں اور صالحینِ اُمت کے مانگے ہوئے خیالات، اِن ہستیوں کے نقشِ کفِ پا پہ نثار کرنے کے لئے اپنی سی کوشش کررہا ہوں۔
صفحہ قرطاس پہ مہکتے ہوئے یہی پھول میری متاع زیست، دردِ محبت کی یہ دولت اور سوزِ عشق کا یہی سرمایہ میرے دل کی کل کائنات ہے۔ ان اہلِ کرم کی کریمانہ ادائی سے کچھ بعید نہیں کہ آنسوئوں اور آہوں کا یہ نذرانہ بصد خلوص قبول کرلیں … رکھیئے کتابِ سیرتِ زہرا نگاہ میں
میں اس حکایت لالہ و گل کا آغاز دنیائے عرب کے معروف ادیب اور مشہور مؤرخ الشیخ احمد خلیل جمعہ کے ان سدا بہار لفظوں سے کرتا ہوں… :’’کاش میں اس شرف کی استطاعت رکھتا کہ سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی داستانِ حیات گلاب کی پتیوں پر مُشکبو سیاہی اور پرِ جبریل سلام اللہ علیہا کے قلم سے لکھ سکتا تاکہ اُن کی سیرت کی خوشبو ہر گھر کے آنگن کو مہکائے، ہر صحنِ چمن میں کھلے گلاب کی ہر پتی میں اُن کی سیرت کی جھلک نظر آئے جو اپنی مہکارسے فضا کو مُشکبار کردے بلکہ اس سے بھی فزوں تراُن کی سیرت امتِ مسلمہ کی ہر بہن، بیٹی، بیوی اور ماں کے لئے کامل نمونہ قرار پائے‘‘۔
میرے آقا ﷺو مولا محسنِ انسانیت رحمت عالم حضرت محمد مصطفی ﷺنے عورت کے تینوں روپ امر کردیئے۔ اپنی ماں کی محبت میں اس زمانے کی ہر عورت کو اتنی تعظیم و تکریم دی کہ چشمِ فلک حیران رہ گئی… اپنی محبوب بیوی سیدہ خدیجۃ الکبريٰ سلام اللہ علیہا کو ان الفاظ میں اپنی محبت کا خراج ادا کیا کہ ’’وہ میری محسنہ تھی‘‘۔ کون ہے جو اپنی بیوی کے لئے اتنی محبت و سرشاری سے یہ جملہ کہنے کا حوصلہ رکھتا ہو … شفقتِ پدری اتنی کہ اپنی پیاری بیٹی سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تکریم میں اپنی چادر اپنے کاندھوں سے اتارتے، زمیں پر بچھاتے اور پیار سے ان کے ماتھے پر بوسہ دیتے، انہیں اس پر بٹھاتے۔ اس عزت و احترام سے اپنی بیٹی کو کس نے نوازا ہے جبکہ یہ عزت و احترام پھول میں خوشبو کی طرح ہر باپ کے دل میں بیٹی کیلئے لازم ہے۔ پس بیٹی ایک قابل احترام ہستی ہے جس کی توقیر آقائے دو جہاں ﷺنے احتراماً کھڑے ہوکر پوری انسانیت پہ واجب کردی۔
یہ کیا سماں یہ کیا گھڑی ہے کہ سانس حلقوم بشر میں اڑی کھڑی ہے
ہوئی ہے مسند نشین زہراؑ مگر نبوت کھڑی ہوئی ہے
یہ بھی حضور ﷺکی محبت کا اعجاز ہے کہ ساری دنیا اپنا حسب نسب، اپنی وراثت اپنی جانشینی اپنے بیٹے میں دیکھتی ہے مگر آپ ؐ کا سلسلہ نسب اپنی بیٹی کی معرفت سے چلا اور تاقیامت چلتا رہے گا۔ یہ حسبی نسبی سے زیادہ روحانی وراثت ہے۔ کربلا کے میدان میں قربانی کو امر کہانی بنانے والے حضور ؐبیٹی کے لخت جگر ہی تھے، اسلام جن کے نام سے زندہ و پائندہ ہے۔
سیدہ طاہرہ رضی اللہ عنہا کی رفعتِ شان اور علو مقام کی بات کہاں سے شروع کی جائے، جن کے والد ماجد سیدالانبیاء محمد مصطفی ﷺمقام محمود پر فائز ہوں گے اور والدہ محترمہ سیدہ خدیجۃ الکبريٰ سلام اللہ علیہا عالی نسب و مقام کے حوالے سے اپنی مثال آپ ہیں… سیدہ کی گفتار حضور ﷺ کے طرزِ تکلّم کی کامل تشبیہ… آپ کا زُہدو عبادت و ریاضت سنت مطہرہ کی کامل اتباع … آپ کا کردار اخلاقِ مصطفیٰ ﷺ کا مظہر …آپ کا صبر و ایثار کردارِ مصطفی ﷺ کی جھلک… آپ کے جودو سخا میں عطائے مصطفی ﷺ کا رنگ… غرض یہ کہ آپ کی حیات کا کونسا ایسا پہلو ہے جو تعلیمات مصطفوی ﷺ کی مکمل عکاسی نہ کرتا ہو۔
احادیث مبارکہ ایسے بے شمار فرمودات مصطفی ﷺسے مزین ہیں جن سے سیدہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کی عظمت و فضیلت اور مقام و مرتبہ بخوبی واضح ہوجاتا ہے۔ ان کے محامد و محاسن اور فضائل و مناقب اتنے ہیں کہ شمار میں نہیں آسکتے۔ کسی بھی فرمان مصطفی ﷺ کا مقام قرآن کی زبان میں وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ کی تفسیر سے ہی سمجھ میں آسکتا ہے۔ عام انسان جگر گوشہ رسول سلام اللہ علیہا کی منقبت میں کتنی ہی گُہر ریزی کیوں نہ کرے وہ کسی ایک حدیث کی ہمسری بھی نہیں کرسکتا۔
سورہ طہٰ و يٰسین میں ہے مدح مصطفیٰؐ
هَلْ أَتٰى میں صاف نازل ہے ثنائے فاطمہؑ
سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ عالم نسواں میں سب سے بڑھ کر عالم و فاضل اپنا مشاہدہ بیان کرتی ہوئی فرماتی ہیں:’’میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا فاطمہ ؓسے کائنات میں کوئی اور بہتر و افضل انسان نہیں دیکھا‘‘۔( طبرانی، المعجم الاوسط)
مزید ارشاد فرماتی ہیں کہ: ’’میں نے فاطمہ بنت رسول سلام اللہ علیہا سے بڑھ کر کسی کو اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے، عادات و خصائل و منع قطع، حسن و خلق اور گفتگو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشابہ نہیں دیکھا‘‘۔( ترمذی، الجامع الصحيح)
سیدنا بریدہ فرماتے ہیں:’’رسول اللہ ﷺ کو خواتین میں سب سے زیادہ محبت اور شفقت سیدہ فاطمۃ الزہرا ؓسے تھی اور مردوں میں سیدنا علیؓ کے ساتھ تھی‘‘۔(ترمذی)
حضرت عبداللہ بن عباس ؓسے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جنت کی خواتین میں سب سے افضل خدیجہ ؓ اور فاطمہ ؓ ہیں‘‘۔(احمد بن حنبل فی المسند)
پس سیدہ فاطمۃ الزہرا ؓ کی سیرت ایک نہ خشک ہونے والا چشمہ ہے اور ایک نہ غروب ہونے والا آفتاب ہے ان سے بہتر کیا کسی کی زندگی ہوسکتی ہے۔
سیدہ طاہرہ سے آپ ﷺنے فرمایا:’’بیشک اﷲتعاليٰ تیری ناراضگی پر ناراض اور تیری رضا پر راضی ہوتا ہے۔‘‘ (حاکم، المستدرک) اور پھر فرمایا:’’فاطمہ تو بس میرے جسم کا ٹکڑا ہے، اسے تکلیف دینے والی چیز مجھے تکلیف دیتی ہے۔‘‘(مسلم)
فاطمہ وہ…جن کی حاضری پر سردارِ دو جہاں ﷺسر و قد کھڑے ہوجایا کرتے۔ چاند سی جبیں پہ شفقت سے بوسہ دیتے اور فداک امی وابی یافاطمہ ’’تجھ پر میرے ماں باپ قربان ہوں اے فاطمہ سلام اللہ علیہا !‘‘ کہہ کر اپنی نشست پر نہایت عزت و احترام سے بٹھاتے۔(حاکم، المستدرک)اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدہ کے گھر تشریف لے جاتے تو وہ بھی سرو قد کھڑی ہوجاتیں، آپ کے دست اقدس کو چومتیں اور اپنی جگہ پر بٹھاتیں۔
سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے محاسن و فضائل کے پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو مشام جاں کو معطر کرتی ہے اور دل میں فرحت و انبساط کا ایک خوشگوار سا احساس پیدا ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ ان احادیث سے آپ کے محاسن کے بلند و بالا محلات جگمگاتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔
… جاری ہے