زخم نارسائی کے، وقت بھر تو دیتا ہے
اک کسک سی رہتی ہے دل میں عمر بھر باقی
تریپورہ ‘ متنازعہ قانون سے دستبرداری
تریپورہ میں تقریبا اٹھارہ برس کے طویل عرصہ کے بعد مسلح افواج کو خصوصی اختیارات دینے کے قانون سے دستبرداری اختیار کرلی گئی ہے ۔ چیف منسٹر تریپورہ مسٹر مانک سرکار نے اس قانون کی برخواستگی کا اعلان کیا اور کہا کہ ریاستی کابینہ نے اس فیصلے کو منظوری دیتے ہوئے مرکزی وزارت داخلہ کو رپورٹ روانہ کردی ہے ۔ انہوں نے ادعا کیا کہ ریاست میں نظم و قانون کی صورتحال میں بہتری اور عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں میں آئی کمی کو دیکھتے ہوئے فوج سے مشاورت کے بعد اس قانون سے دستبرداری اختیار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ یہ قانون ایسا ہے جس کے نتیجہ میں مسلح افواج کو غیر محدود اختیارات حاصل ہوجاتے ہیں اور وہ عسکریت پسندوں کو دیکھتے ہی گولی مار سکتی ہے ۔ کسی کو بھی کسی وارنٹ کے بغیر گرفتار کیا جاسکتا ہے اور گھروں یا کسی بھی مقام کی کسی اجازت کے بغیر تلاشی لی جاسکتی ہے ۔ ان ساری کارروائیوں کیلئے اسے کسی طرح کی قانونی کارروائی کا بھی سامنا کرنا نہیں پڑتا کیونکہ اس قانون کے تحت جو کچھ بھی کیا جائے اس کو قانونی استثنی حاصل ہوتا ہے ۔ تریپورہ میں یہ قانون اس وقت لگایا گیا تھا جب ریاست میں عسکریت پسندوں کی سرگرمیاں عروج پر تھیں۔ یہاں دو علیحدگی پسند گروپس نیشنل لبریشن فرنٹ آف تریپورہ اور آل تریپورہ ٹائیگر فورس نامی دو تنظیمیں سرگرم تھیں اور ان کی سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے 16 فبروری 1997 کو یہاں یہ انتہائی سخت گیر قانون نافذ کیا گیا تھا ۔ اس قانون کو یہاں نافذ ہوئے اٹھارہ سال کا طویل عرصہ گذر گیا تھا ۔ اس کی برخواستگی کا مطالبہ کرتے ہوئے تریپورہ کی ایک انسانی حقوق کارکن اروم شرمیلا گذشتہ پندرہ سال سے بھوک ہڑتال کر رہی ہیں۔ ان کا مطالبہ تھا کہ اس قانون کو ریاست سے برخواست کیا جائے ۔ خود ریاست کی دوسری تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کا بھی خیال تھا کہ یہ انتہائی خطرناک اور بہیمانہ قانون ہے اور اس کو برخواست کیا جانا چاہئے ۔ بعض جماعتوں کا الزام تھا کہ یہ قانون ریاست میں 33 فیصد قبائلی عوام کو کچلنے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے ۔ریاست میں سی پی ایم دور حکومت میں لا اینڈ آرڈر کی صورتحال میں بہتری پیدا ہوئی ہے اور عسکری سرگرمیوں پر بھی قابو پایا جاسکا ہے جس کے نتیجہ میں اس قانون کی برخواستگی عمل میں لائی گئی ہے ۔
مرکزی حکومت حالانکہ اس قانون کی برخواستگی کی مخالف رہی ہے لیکن ریاستی حکومت نے اپنے طور پر یہ فیصلہ کیا ہے اور اس نے مرکزی وزارت داخلہ کو یہ سفارش روانہ کردی ہے کہ ریاست سے اس قانون کو برخواست کردیا جائے ۔ یہ قانون جموں و کشمیر کے علاوہ منی پور ‘ آسام اور ناگالینڈ میں بھی لاگو ہے جبکہ اروناچل پردیش کے دو اضلاع کا بھی اس کے تحت احاطہ کیا گیا ہے ۔ حالانکہ ریاست میں عسکری سرگرمیوں میں کمی آئی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مذکورہ بالا دو عسکری تنظیموں کے ارکان پر اب تک بھی بنگلہ دیش میں ہتھیاروں کے استعمال کی تربیت حاصل کرنے اور دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث رہنے کے الزامات عائد کئے جاتے ہیں۔ ان گروپس کے ارکان پر بنگلہ دیش میں پناہ حاصل کرنے کا بھی الزام ہے ۔ جہاں تریپورہ حکومت نے تمام حالات کو دیکھتے ہوئے اور صلاح و مشورے کے ذریعہ اس قانون کی برخواستگی کا ایک ذمہ دارانہ فیصلہ کیا ہے وہیں اب اس سلسلہ میں دوسری ریاستوں کو بھی کوشش کرنے کی ضرورت ہے ۔ خاص طور پر ریاست جموں و کشمیر میں اس قانون کو برخواست کرنے کے تعلق سے مطالبات میں شدت آتی جا رہی ہے ۔ ریاست میں برسر اقتدار اتحاد کی اصل جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی بھی چاہتی ہے کہ اس قانون کو برخواست کردیا جائے جبکہ اقتدار کی شریک بی جے پی اس رائے کی شدید مخالف ہے اور وہ اس قانون کی برقراری کے حق میں ہے ۔خود فوج نے حالانکہ کھل کر کچھ نہیں کہا ہے لیکن اس کے اشارے بھی قانون کی برقراری کے حامی دکھائی دیتے ہیں۔
تریپورہ میں اس قانون کی برخواستگی ایک قابل خیر مقدم اقدام ہے اور اس کو دوسری ریاستوں میں بھی اختیار کئے جانے کی ضرورت ہے ۔ جہاں تک فوج کا سوال ہے ملک کی داخلی صورتحال اور سکیوریٹی فوج کی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اس کے باوجود فوج کو جہاں کہیں بھی داخلی سکیوریٹی کی ذمہ داری دی گئی ہے اس نے یہ ذمہ داری نبھائی ہے ۔ فوج کا کام ملک کی سرحدات کی حفاظت کرنا اور دشمن کے عزائم کو ناکام بنانا ہے ۔ داخلی سلامتی اور سکیوریٹی کے مسئلہ سے نمٹنے نیم فوجی دستے اور پولیس فورس موجود ہے اور ان کی خدمات کو بروئے کار لاتے ہوئے یہ کام انجام دیا جاسکتا ہے ۔ تریپورہ کے بعد منی پور ‘ آسام ‘ ناگالینڈ اور خاص طور پر جموں و کشمیر میں بھی اس قانون کی برخواستگی کیلئے عملی اقدامات کئے جانے چاہئیں ۔ مرکز میں برسر اقتدار این ڈی اے حکومت کو اس مسئلہ کو تنگ نظری سے دیکھنے کی بجائے وسیع تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے ۔