ترک وزیراعظم شام میں زمینی فوج بھیجنا نہیں چاہتے

حالیہ کارروائیوں کے بعد ترک حکومت اور پی کے کے میں جنگ بندی کا ادعا
انقرہ ۔ 27 جولائی (سیاست ڈاٹ کام) ترکی کے وزیراعظم احمد داؤد اوغلو نے کہا ہے کہ شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ اور کرد علیحدگی پسند تنظیم’پی کے کے‘ کے خلاف فضائی حملے ’علاقائی صورتحال تبدیل‘ کر سکتے ہیں۔ تاہم احمد داؤد اوغلو نے واضح کیا ہے کہ ترکی کا شام میں زمینی فوج بھجوانے کا کوئی ارادہ نہیں اور وہ شام میں دولتِ اسلامیہ کے خلاف لڑنے والے باغیوں کی مدد کے لیے فضائی حملے کر رہے ہیں۔ خیال رہے کہ منگل کو برسلز میں نیٹو کے سفیروں کا اجلاس بھی منعقد ہوگا۔ ترکی نے شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ اور علیحدگی پسند کرد تنظیم ’پی کے کے‘ کے خلاف جاری عسکری آپریشن کے جائزے کے لیے ناٹو ممالک کے سفیروں کا اجلاس طلب کیا ہے۔ ترکی نے حالیہ حملوں کے بعد شام میں دولتِ اسلامیہ اور شمالی عراق میں پی کے کے کی پناہ گاہوں کے خلاف فضائی کارروائی شروع کر رکھی ہے۔ ترکی کے وزیراعظم نے اخباروں کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا ہے کہ علاقائی تصادم کی وجہ سے اب نئی صورتحال میں ترکی کی کارروائی ہو رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس صورتحال میں ترکی جو کہ اپنی فوج کو موثر طریقے سے استعمال کر سکتا ہے۔ وہ تنائج حاصل کرنے میں سب سے آگے ہو سکتا ہے اور یہ شام، عراق اور پورے خطے کی صورتحال بدل سکتا ہے۔ ترک اخبار حریت ڈیلی میں وزیراعظم کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ انھوں نے تجویز دی ہے کہ اس معاملے پر دیگر ممالک کو اپنی پوزیشن کو جانچنے اور اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور 20 جولائی کو ترکی کی شام سے متصل سرحد پر سوروچ قصبے میں ایک خودکش حملے میں 32 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ حملے کی ذمہ داری دولتِ اسلامیہ پر عائد کی گئی ہے۔ادھر پی کے کے نے اس حملے کو ترکی اور دولتِ اسلامیہ کے درمیان اتحادی کارروائی تصور کرتے ہوئے ترک پولیس پر حملے شروع کر دیے۔ ناٹو کے سیکرٹری جنرل جینز سٹوٹنبرگ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ترکی نے نیٹو کے آئین کے آرٹیکل 4 کے تحت یہ اجلاس طلب کیا ہے جس کے مطابق کوئی بھی رکن ملک اپنی علاقائی حدود کو خطرے کے پیشِ نظر تمام رکن ممالک کا اجلاس طلب کرنے کا حق رکھتا ہے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل ترکی کے وزیر اعظم نے کہا تھا کہ ترک فضائیہ شام میں شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ اور شمالی عراق میں کرد جنگجوؤں کے ٹھکانوں پر بمباری ملکی سالمیت کے دفاع کے لئے کر رہی ہیں۔ وزیر اعظم احمد داؤد اوغلو نے مزید کہا کہ پی کے کے کہلانے والی تنظیم اور دولت اسلامیہ کے 590 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔امریکہ کے لیے فضائی اڈہ ترکی کے جنگی جہازوں نے جمعہ سے شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانا شروع کیا ہوا ہے۔ اس سے قبل ترکی پر دولت اسلامیہ کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر تنقید کی جاتی رہی ہے۔ شمالی عراق میں کرد جنگجوؤں کے خلاف ترک فضائیہ کی کارروائی 2013 میں کردستان ورکرز پارٹی کے ساتھ ہونے والی جنگ بندی کے بعد پہلی کارروائی ہے۔ حالیہ کارروائیوں کے بعد ترک حکومت اور پی کے کے کے درمیان دو سالہ جنگ بندی ختم ہوگئی ہے۔ یاد رہے کہ پی کے کے کہلانے والی تنظیم کردوں کے لیے خود مختار ریاست کے لیے ترکی کے خلاف کئی دپائیوں سے لڑ رہی ہے۔ ترک صدر رجب طیب اردوگان نے تصدیق کی تھی کہ امریکی جنگی طیاروں کو دولتِ اسلامیہ کے خلاف کارروائی کے لیے ملک کے جنوبی علاقے میں واقع فضائی اڈہ استعمال کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ انکرلک نامی فضائی اڈے کو معاہدے کے تحت مخصوص شرائط کے تحت ہی استعمال کیا جا سکے گا۔ ترک وزیراعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ ایف 16 طیاروں نے جمعے کو دولتِ اسلامیہ کے تین ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔خیال رہے کہ شام اور ترکی کی سرحد پر دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں اور ترک فوج کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں ایک ترک اہلکار ہلاک اور دو زخمی ہوگئے تھے۔