ترکی کا داعش کیخلاف امریکی فوجی مشن کی میزبانی سے انکار

انقرہ ، 12 ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) ترکی نے امریکہ کے زیر قیادت بین الاقوامی اتحاد کو عراق اور شام میں داعش پر حملوں کیلئے اپنی سرزمین اور ہوائی اڈے استعمال کرنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا ہے اور وہ اسلامی جنگجوؤں کے خلاف جنگی کارروائیوں میں حصہ بھی نہیں لے گا۔ ترکی کے ایک سرکاری عہدے دار نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا ہے کہ ’’ترکی کسی مسلح کارروائی میں حصہ نہیں لے گا بلکہ صرف انسانی امداد کی سرگرمیوں پر اپنی توجہ مرکوز کرے گا‘‘۔ ترکی نے 2003ء میں امریکہ کی عراق پر چڑھائی کے وقت بھی اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دینے اور تقریباً ساٹھ ہزار امریکی فوجیوں کی میزبانی سے انکار کردیا تھا جس کی وجہ سے ان دونوں نیٹو اتحادیوں کے درمیان تعلقات میں سرد مہری آگئی تھی۔ترکی نے اس وقت بھی اپنے ہوائی اڈوں کو صدام حسین کی فوج پر حملوں کیلئے استعمال کرنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا تھا۔ ترکی پر بعض ناقدین کی جانب سے دولت اسلامی عراق وشام (داعش) کی تشکیل کی بالواسطہ حوصلہ افزائی کرنے پر تنقید کی جاتی رہی ہے اور اس پر شامی صدر بشارالاسد کے اسلام پسند مخالفین کی حمایت کا الزام عاید کیا جاتا رہا ہے لیکن وہ ان الزامات کو مسترد کرچکا ہے

اور اس کا کہنا ہے کہ بشارالاسد کو اقتدار سے نکال باہر کرنے کیلئے اس کی حکمت عملی ناکامی سے دوچار نہیں ہوئی ہے بلکہ کامیاب رہی ہے۔ سخت گیر داعش کے جنگجوؤں نے عراق اور شام کے شمالی علاقوں پر قبضہ کرکے اپنی عمل داری قائم کررکھی ہے اور دونوں ممالک کے ترکی کی سرحد کے ساتھ واقع بیشتر علاقے اب داعش کے کنٹرول میں ہیں۔ترکی کا کہنا ہے کہ وہ تو خود داعش کی چیرہ دستیوں کا شکار ہوچکا ہے اور اس کے انچاس شہری اس وقت داعش کے جنگجوؤں نے یرغمال بنا رکھے ہیں۔انھیں 11 جون کو عراق کے شمالی شہر موصل پر حملے کے دوران ترک قونصل خانے سے اغوا کر لیا گیا تھا۔ان میں ترک سفارت کار ،خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ ترکی اپنے ان یرغمال شہریوں کو بچانے کیلئے داعش کے خلاف کوئی سخت موقف اختیار کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ ترک عہدہ دار نے کہا کہ ’’ان یرغمالیوں کی وجہ سے ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں‘‘۔ تاہم اس عہدہ دار کے بقول ’’ترکی انسانی امدادی کارروائیوں کیلئے اپنی انچرلیک ائِربیس کو کھول سکتا ہے لیکن اس کو عراق اور شام میں مہلک فضائی حملوں کیلئے استعمال کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دی جائے گی۔نیز ترکی کسی لڑاکا مشن میں حصہ لے گا اور نہ ہتھیار مہیا کرے گا‘‘۔