شکستہ دل ٹھہر جاتے ہیں رستے میں
شکستہ پائی ہر منزل سے آگے ہے
ترکی دہشت گردی کا شکار
ترکی کے شہر استنبول میں دہشت گرد حملوں کے واقعات اس ملک کو کمزور کرنے کی سازش کا تسلسل ہیں۔ سال نو کے موقع پر دہشت گردی کے خطرہ کے پیش نظر ہائی الرٹ کے باوجود دہشت گردانہ کارروائی ہوتی ہے تو یہ سیکوریٹی ڈھانچہ میں خامیوں کی نشاندہی کرتی ہے۔ شہر میں 17 ہزار پولیس ملازمین کی تعیناتی بھی رائیگاں ثابت ہوئی۔ ترکی میں سال 2016ء میں دہشت گرد حملوں سے درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔ 10 ڈسمبر یا 20 اگست، 30 جولائی اور 28 جون کے دہشت گرد حملوں نے اس ملک کی سیکوریٹی کیلئے بڑا چیلنج کھڑا کردیا تھا لیکن نئے سال کا جشن منانے کے دوران نائٹ کلب پر حملہ کا مقصد حکمراں طاقت کے حوصلے پست کرنا بھی ہوسکتا ہے۔ ترکی میں افراتفری پھیلا کر اپنے مقاصد کو کامیاب بنانے والی طاقتوں سے حکومت ترکی کو سختی کے ساتھ نمٹنے میں کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہئے۔ ایک سال میں متواتر حملے اور انسانی جانوں کا بھاری نقصان تشویشناک بات ہے۔ حالیہ چند ماہ میں ترکی میں شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ اور کرد باغیوں کی کارروائیوں میں اضافہ حالات کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔ نائٹ کلب کو نشانہ بنانے کا مقصد یہی ہوسکتا ہیکہ اس موقع پر ملک و بیرون ملک کے شہریوں کی کثیر تعداد جمع ہوتی ہے اور اس ہجوم کو نشانہ بنانا آسان بات ہے۔ حملے کے وقت نائٹ کلب میں 700 افراد موجود تھے۔ اس شورشرابے اور افراتفری کا فائدہ اٹھا کر حملہ آور بھی فرار ہوگیا۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی قیادت کا حصہ ہونے کے باوجود ترکی اس خطرہ کا سب سے زیادہ شکار ہوتا جارہا ہے۔ ناٹو کارکن اور دولت اسلامیہ کے خلاف امریکی زیرقیادت اتحاد میں فریق بننے کی شاید ترکی کو یہ سزاء دی جارہی ہے۔ اس ملک کو کردش باغیوں کے ساتھ بھی نبردآزما ہونا پڑ رہا ہے۔ شام اور عراق سے متصل ترکی کی سرحدیں غیرمحفوظ ہیں۔ حملہ آور نے معصوم افراد کو نشانہ بنا کر ایک بزدلانہ حرکت کی ہے۔ اس کو سراسر غیرانسانی کارروائی بھی قرار دیا جاتا ہے۔ ترکی کے دو بڑے شہروں استنبول اور انقرہ دہشت گردوں کے نشانہ پر ہیں۔ اسی طرح کے سنگین خطرات کے ساتھ ترکی دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ لڑ رہا ہے۔ اپنے شہریوں کی سلامتی اور امن کی برقراری کو یقینی بنانے کی ہر ممکنہ کوششوں کے بعد بھی حملے ہورہے ہیں۔ مخالف دہشت گرد حکمت عملی کو مزید مؤثر بنانے کی ضرورت ہے۔ نائٹ کلب حملے کے بعد عالمی طاقتوں نے واقعہ کی مذمت ضرور کی ہے لیکن اس طرح کی کارروائیوں کی روک تھام کیلئے عالمی انٹلیجنس شعبہ کو مضبوط اور قوی بنایا جائے تو امکانی حملوں کو ناکام بنایا جاسکتا ہے مگر ترکی کی حکومت نے ان امکانی حملوں سے متعلق اپنی انٹلیجنس کی ناکامی کو تسلیم نہیں کیا ہے تو یہ اس کی بھول ہوگی۔ دہشت گرد تنظیموں کے مقاصد کو سمجھنے اور اس کا اندازہ رہنے کے باوجود یہ لوگ اپنے نشانہ کو پورا کرتے ہیں تو یہ بات واضح ہوتی ہیکہ دہشت گرد گروپ ہر ملک کے سیکوریٹی ڈھانچہ سے ضرور واقف ہوتے ہیں۔ یہ دہشت گردی دنیا کے کسی بھی مقام پر ہوسکتی ہے۔ اس سے نمٹنے کیلئے اگر عالمی طاقتوں نے دوہرا معیار اختیار کیا ہے تو یہ افسوسناک موقف سمجھا جائے گا۔ صدر ترکی رجب طیب اردغان کو ایک طاقتور صدر سمجھا جاتا ہے۔ 90 سال قبل اتاترک نے جس ترکی کو چھوڑا تھا اس کے بعد صدر طیب اردغان ایک طاقتور رہنما بن کر ابھرے ہیں تو ان کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہی ہوا۔ 1980ء کی فوجی بغاوت کے بعد سے ایک طاقتور صدر کے طور پر اردغان کو مؤثر حکمت عملی تیار کرنی ہوگی۔ ترکی کو درپیش مسائل کو حل کرنے کیلئے رجب طیب اردغان کو کسی غیرمعمولی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کی ضرورت نہیں وہ صرف اپنے اختیارات کو بروئے کار لاکر دشمن طاقتوں کو نام بناتے ہیں تو کئی مسائل اور خطرات دور ہوں گے۔ ان کی خارجہ پالیسی بھی ایک طرح سے دشمن پیدا کرلینے کا کام کررہی ہے۔ روس اور ایران کے ساتھ ترکی کا تصادم اور اس کے پیچھے پوشیدہ ہاتھوں تک پہنچنے میں ناکامیوں کا انجام نائٹ کلب جیسے سانحات کی شکل میں نمودار ہوتا ہے۔ ترکی کو بدامنی کا شکار بنائے رکھنے کی سازش کرنے والی طاقتیں اس بات سے انجان ہیں کہ اگر ترکی کو بدامنی کا شکار بنایا گیا تو اس سے مغرب بھی محفوظ نہیں رہ سکے گا۔ صدر کی حیثیت سے رجب طیب اردغان کو ناپسند کرنے والے ترکی قائدین ہی اپنے ملک کی تباہی کیلئے کام کررہے ہیں تو یہ اس گھر کو آگ لگی گھر کے چراغ سے کا معاملہ دکھائی دے گا۔