ترقی پر حکومت کے دعوے اور حقیقت

جسے ہم صاف پہچانیں، وہی منظر نہیں ملتا
یہاں سائے تو ملتے ہیں، کوئی پیکر نہیں ملتا
ترقی پر حکومت کے دعوے اور حقیقت
نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی نے لوک سبھا انتخابات سے قبل ترقی کے نعرے لگائے تھے۔ ملک کے عوام سے مسلسل یہ کہا جا رہا تھا کہ اگر بی جے پی اور نریندر مودی کو اقتدار مل جاتا ہے تو پھر ملک کی قسمت مل جائیگی۔ ایسا تاثر دیا جا رہا تھا کہ نریند رمودی یا بی جے پی کے پاس کوئی جادوئی چراغ ہے جسے استعمال کرتے ہوئے راتوں رات ملک کی اور ملک کے عوام کی قسمت بدل دی جائیگی۔ ترقی کے نعرے ایسا خوش کن انداز میں لگائے گئے کہ ملک کے عوام کی ایک خاطر خواہ تعداد نے کانگریس کے دس سالہ دور حکومت کے بعد بی جے پی کے حق میں اپنی رائے ظاہر کی تھی۔ ملک بھر میں بی جے پی نے کانگریس مخالف لہر اور نریندر مودی کی فرقہ پرستی کی امیج سے فائدہ اٹھانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ سماج کے مختلف گوشوں نے بھی بی جے پی کو اقتدار حاصل کرنے میں مدد کی۔ خاص طور پر قومی سطح پر ذرائع ابلاغ اور الیکٹرانک میڈیا نے تو مودی کی تعریف میں زمین و آسمان کو ایک کردیا تھا۔ یہ خواب ملک کے عوام کی آنکھوں میں زبردستی ڈالے گئے کہ مودی کے اقتدار میں ہندوستان کی قسمت بدل جائیگی۔ ہر ہندوستانی شہری لکھ پتی بن جائیگا اور مہنگائی کو کم کیا جائیگا۔ نوجوانوں کو راتوں رات روزگار سے جوڑ دیا جائیگا۔ دفاعی شعبہ میں ملک طاقتور ہوجائیگا۔ خواتین کی قسمت کو بدل دیا جائیگا۔ ملک کی معیشت کو جو مسلسل گراوٹ کا شکار ہے مثبت راہ دکھائی جائیگی اور یہ یقینی بنایا جائیگا کہ معیشت تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کرے تاکہ ملک کے عوام کو اس کے ثمرات پہونچائے جاسکیں۔ اب جبکہ مودی حکومت کو اقتدار سنبھالے ہوئے نو مہینے ہو رہے ہیں شائد ہی کسی وعدہ پر عمل آوری کی شروعات ہوسکی ہو۔ شائد ہی کوئی شعبہ ایسا ہو جہاں ملک نے واقعتا ترقی کا سفر شروع کیا ہو۔ شائد ہی کوئی طبقہ عوام کا ایسا ہو جو حکومت کی کارکردگی سے مطمئن ہو رہا ہو اور اسے یہ احساس ہو رہا ہو کہ حکومت نے جو وعدے انتخابات سے قبل کئے تھے انہیں پورا کیا جارہا ہو۔ اس کی بجائے فرقہ پرستی کا عروج ہوگیا ہے اور فرقہ پرست تنظیمیں اور ادارے اپنے ناپاک عزائم کھلے عام ظاہر کرنے لگی ہیں۔ حکومت ان فرقہ پرست تنظیموں کے خلاف کسی طرح کی کارروائی کرنے کے موقف میں بھی نظر نہیں آتی۔ انڈیا آئی این سی کی جانب سے آج جو ڈاٹا جاری کیا گیا تھا اس کے مطابق گذشتہ چھ مہینوں کے دوران بھی ملک کی معیشت میںکسی طرح کی بہتری پیدا نہیں ہوسکی ہے اور مایوس کن رفتار کا سلسلہ ہی جاری ہے۔ خاص طور پر صنعتی شعبہ میں جس طرح کی سرگرمی اور تیزی کی امید دکھائی جا رہی تھی وہ بالکل بھی پوری نہیں ہوسکی ہے اور صنعتی منظر نامہ ہنوز سست روی کا شکار ہے۔ صنعتی سرگرمیوں کی سست روی ملک کی معیشت پر اثر انداز ہورہی ہے اور جب معاشی ترقی کی رفتار سست ہوگی تو اس سے ملک کے عوام کے معیار زندگی پر بھی منفی اثر ہی پڑیگا۔ کہا گیا ہے کہ صنعتی حلقوں کو اور دوسرے شعبہ جات کو این ڈی اے حکومت سے جو امیدیں تھیں وہ پوری نہیں ہوسکی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ چھ مہینوں کے دوران معیشت کی صورتحال میں کسی طرح کی تبدیلی نہیں آسکی ہے اور کچھ شعبہ جات میں ہنوز مایوسی کا اثر ہے۔ حالانکہ کچھ صنعتی حلقوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ آئندہ مہینوں میں حالات میں مثبت اور بہتر تبدیلی آسکتی ہے لیکن اس وقت تک موجودہ صنعتیں اور چھوٹی یونٹیں ختم ہونے کے قریب پہونچ سکتی ہیں۔ ترقی کے نعرہ پر اقتدار حاصل کرنے اور اقتدار ملنے کے بعد بھی ترقی کے کھوکھلے دعوی کرنے والی حکومت نے حالات کو واقعی بدلنے کیلئے گذشتہ چھ مہنیوں کے دوران ایسے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے جن کی وجہ سے معیشت کی ترقی کی رفتار میں اضافہ ہوسکے اور صنعتی حلقوں کو بھی اطمینان محسوس ہوسکے۔ عوام کو متاثر کرنے کیلئے خوش کن دعوے اور اعلانات اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ معیشت میں کسی طرح کی بہتری نہیں ہوسکی ہے۔ جہاں تک بتدریج اور معمول کی رفتار سے تبدیلی کی بات ہے وہ تو خود صنعتی حلقوں کی کوششوں سے ہوتی رہتی ہے۔ حکومت نے اپنے طور پر جو دعوے کئے تھے وہ اپنی جگہ صرف زبانی جمع خرچ ثابت ہوئے ہیں اور حقیقت میں کسی طرح کی تبدیلی محسوس نہیں کی جا رہی ہے۔ جن صنعتی حلقوں کو حکومت کی سرپرستی حاصل ہے وہ تو حکومت کی تعریف میں رطب اللسان ہیں لیکن اس کے ثمرات بھی صرف چند گھرانوں تک محدود ہیں۔ بحیثیت مجموعی ملک کے عوام کو اس کے ثمرات نہیں پہونچ پا رہے ہیں۔ملک کا سارا صنعتی منظر نامہ مودی حکومت میں بھی بدلا نہیں ہے اور یو پی اے حکومت کے اقتدار کا جو ماحول صنعتی شعبہ میں تھا وہی اب بھی برقرار ہے۔ حکومت کو اپنے وعدوں کو پورا کرنے حقیقت میں ٹھوس اور مثبت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔