وزیر اعظم نریندر مودی ایسا لگتا ہے کہ ایک بار پھر پوری طرح انتخابی موڈ میں آگئے ہیں۔ وہ مختلف ترقیاتی پراجیکٹس اور کاموں کا افتتاح کرنے ملک کی کئی ریاستوں کا دورہ کر رہے ہیں اور وہاں ان کی جو تقاریر ہیں وہ کسی ترقیاتی ایجنڈہ کو ظاہر کرنے اور حکومت کے کارناموں کو پیش کرنے کی بجائے صرف اپوزیشن پر تنقیدیں کرنے میں ختم ہو رہی ہیں۔ نریندر مودی نے بحیثیت وزیر اعظم چار سال پورے کرلئے ہیں۔ اب ان کی معیاد کا آخری سال چل رہا ہے اور ملک میں تقریبا تمام ہی سیاسی جماعتوںاور خود بی جے پی نے اپنی انتخابی تیاریوں کا آغاز کردیا ہے ۔ ہر جماعت اپنے اپنے طور پر خود کو عوام کے سامنے پیش کرنے کی تیاری میں جٹ گئی ہے اور چاہتی ہے کہ اس بار وہ زیادہ سے زیادہ عوامی تائید حاصل کرسکے ۔ ویسے تو سبھی سیاسی جماعتیں عوام کو رجھانے کی کوشش کرتی ہیں اور دوسری جماعتوں میں نقائص اور خامیاں ڈھونڈ کر عوام کے سامنے پیش کرتی ہیں لیکن جہاں تک حکومتوں کا سوال ہوتا ہے ان پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ انہیں سب سے پہلے اپنے کام کاج کی رپورٹ عوام کے سامنے پیش کرنی ہوتی ہے ۔ انہیں اپنی معیاد کے دوران کئے گئے کاموں کو عوام کے سامنے پیش کرنا ہوتا ہے اور مستقبل کے منصوبوں سے عوام کو واقف کروانے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن مودی کی جانب سے ایسا نہیں کیا جا رہا ہے وہ صرف کانگریس یا پھر اپوزیشن کو تنقیدوں کا نشانہ بنانے پر اکتفا کر رہے ہیں۔ حالانکہ خود مودی کی پارٹی بی جے پی نے ملک کو کانگریس سے پاک بنانے کی مہم کا اعلان کیا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعظم اور ان کی پارٹی کے قائدین خود اپنے ذہنوں سے کانگریس کو جھٹکنے میں کامیاب نہیں ہو رہے ہیں۔ اپوزیشن پر تنقیدیں ضرور حکومت کا حق ہیں لیکن اس سے پہلے حکومتیں عوام کے سامنے اپنی کارکردگی پیش کرنے کی پابند بھی ہوتی ہیں اور اس فریضہ کو پوری طرح سے فراموش کردیا گیا ہے ۔ اس صورتحال میں اپوزیشن یہ الزام عائد کر رہی ہے کہ حکومت کے پاس عوام کے سامنے پیش کرنے کیلئے نہ کوئی کارنامہ ہے اور نہ مستقبل کا کوئی منصوبہ ہے ۔ ایسے میں صرف سیاسی منظرنامہ میں ہلچل برقرار رکھنے کیلئے اپوزیشن کو تنقیدوں کا نشانہ بنانے پر ہی انحصار کیا جا رہا ہے۔
نریندر مودی نے جب بحیثیت وزارت عظمی امیدوار 2014 میں انتخابات میں مقابلہ کیا تھا انہوںنے عوام سے اپنے لئے صرف 60 مہینے مانگے تھے ۔ ان کا کہنا تھا کانگریس نے 60 سال حکومت کی ہے اس کے بدلے انہیں صرف 60 ماہ دئے جائیں ۔ عوام نے ان کو یہ مہلت دیدی ۔ انہوں نے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ بیرونی ممالک میں موجود کالا دھن واپس لائیں گے ۔ ہر سال دو کروڑ روزگار نوجوانوں کو فراہم کرینگے۔ ملک کی معیشت کی حالت بدل دی جائے گی ۔ ہندوستان کی ترقی کے سفر کو تیز رفتار کردیا جائیگا ۔ عوام کے بینک کھاتوں میں لاکھوں روپئے جمع کروادئے جائیں گے ۔ ایسے بہت سے وعدے تھے اور عوام کو ان سے توقعات وابستہ تھیں۔ تاہم آج چار سال پورے کرنے کے باوجود مودی یا ان کی حکومت کے ذمہ داران کسی ایک بھی وعدہ کی تکمیل کا دعوی کرنے کے موقف میں نہیں ہیں۔ بیرونی ممالک میں رکھا گیا کالا دھن واپس نہیں آیا ہے بلکہ اس کے برخلاف ہندوستان سے بڑے تاجر ہزاروں کروڑ روپئے کے غبن کرکے بیرونی ملکوں کو فرار ہوچکے ہیں۔ نوجوانوں کو کروڑہا روزگار فراہم کرنے کا وعدہ کرنے والی حکومت پکوڑے تلنے اور پان شاپ لگانے کا مشورہ دیتے ہوئے بری الذمہ ہونے کی کوشش کر رہی ہے ۔ ملک کی معیشت کو نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی وجہ سے مشکلات کا شکار کردیا گیا ہے ۔ روپئے کی قدر میں مسلسل گراوٹ آتی جا رہی ہے اور یہ 70 روپئے فی ڈالر کے آس پاس تک جا پہونچا ہے ۔ حکومت اس پر کوئی جواب دینے کے موقف میں نظر نہیں آتی ۔
وزیر اعظم مودی ہوں یا پھر ان کے رفقائے کار ہوں سبھی کچھ ایسا لگتا ہے کہ میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے عوام کے ذہنوں پر مخصوص حالت کو مسلط کرنے کی حکمت عملی پر کام کر رہے ہیں۔ ان کے پاس نہ کوئی کارنامے ہیں اور نہ حقیقی صورتحال کو پیش کرنے کی جراء ت نظر آتی ہے ۔ یہ لوگ صرف ایک خول میں رہتے ہوئے دنیا کو اسی منظرنامہ کا تابع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو وہ پیش کرنا چاہتے ہیں۔ نریندر مودی اسی ریاست میں ترقیاتی پراجیکٹس کا آغاز کرنے میں شہرت رکھتے ہیں جہاں انتخابات ہونے ہوتے ہیں۔ اب جبکہ عام انتخابات کا وقت قریب آتا جا رہا ہے وہ ملک بھر میں دورے شروع کرچکے ہیں اور زیادہ توجہ اترپردیش پر دی جا رہی ہے ۔ وہ حالیہ عرصہ میں یہاں تین دورے کرچکے ہیں لیکن حکومت کے کام کاج پیش کرنے کی بجائے اپوزیشن پر تنقیدوں کا سہارا لے رہے ہیں۔ اسطرح ان کے دورے ترقیاتی نہیں انتخابی بنتے جا رہے ہیں۔