تلنگانہ میں 62 فیصد اور آندھرا پردیش میں 55 فیصد تحفظات ، مودی کا تبصرہ مرکز اور بی جے پی کی پالیسی سے تعبیر
حیدرآباد ۔6۔ ڈسمبر (سیاست نیوز) وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے تحفظات کے مسئلہ پر گجرات میں دیئے گئے بیان کے بعد تلنگانہ اور آندھراپردیش کی حکومتوں کو 50 فیصد سے زائد تحفظات کی برقراری کسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔ دونوں ریاستوں نے سپریم کورٹ کی جانب سے مقرر کردہ 50 فیصد کی حد سے تجاوز کرتے ہوئے مختلف طبقات کو تحفظات فراہم کئے ہیں۔ تلنگانہ میں تحفظات کا مجموعی فیصد 62 ہوچکا ہے جبکہ آندھراپردیش میں 55 فیصد تحفظات ہیں۔ ٹی آر ایس حکومت نے انتخابی وعدہ کے مطابق مسلمانوں کے موجودہ 4 فیصد تحفظات کو بڑھاکر 12 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے علاوہ درج فہرست قبائل کے موجودہ 6 فیصد تحفظات کو بڑھاکر 10 فیصد کیا گیا۔ اس سلسلہ میں اسمبلی میں بل منظور کرتے ہوئے مرکزی حکومت کو روانہ کیا گیا ہے ۔ تلنگانہ حکومت پرامید ہے کہ مرکز ٹاملناڈو کی طرح اضافی تحفظات کو دستور کے 9 ویں شیڈول میں شامل کرے گا۔ دوسری طرف آندھراپردیش کی چندرا بابو نائیڈو حکومت نے گزشتہ ہفتہ کاپو اور دیگر تین طبقات کو 5 فیصد تحفظات فراہم کرتے ہوئے بل کو منظوری دی۔ آندھراپردیش میں تحفظات 50 سے بڑھ کر 55 فیصد ہوچکے ہیں۔ دونوں ریاستوں کو وزیراعظم سے امید ہے کہ وہ اضافی تحفظات کو 9 ویں شیڈول میں شامل کرتے ہوئے منظوری دیں گے۔ دونوں ریاستوں کا معاملہ ابھی زیر تصفیہ ہے کہ اچانک وزیراعظم نریندر مودی نے گجرات کے انتخابی مہم کے دوران واضح کردیا کہ سپریم کورٹ نے 50 فیصد کی جو حد مقرر کی ہے ، اس سے سیاسی جماعتوں کو تجاوز نہیں کرنا چاہئے ۔ وزیراعظم کے اس بیان کے بعد اضافی تحفظات کی برقراری دونوں ریاستوں کے لئے چیلنج بن چکی ہے اور انہیں دیگر راستے اختیار کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راو نے وضاحت کی کہ اگر مرکزی حکومت تحفظات کو منظوری نہیں دے گی تو وہ سپریم کورٹ سے رجوع ہوں گے تاکہ ٹاملناڈو کی طرز پر اضافی تحفظات کو برقرار رکھا جاسکے۔ دونوں ریاستوں نے اضافی تحفظات کو دستور کے 9 ویں شیڈول میں شامل کرنے مرکز سے خواہش کی ہے۔ وزیراعظم نے اگرچہ راست طور پر دونوں ریاستوں کے تحفظات کو نشانہ بنایا لیکن گجرات میں کانگریس کی جانب سے پٹیل برادری کو تحفظات کی فراہمی کے وعدہ کے پس منظر میں یہ ریمارک کیا۔ سیاسی مبصرین وزیراعظم کے اس تبصرہ کو تحفظات کے سلسلہ میں مرکز اور بی جے پی پالیسی کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ چندر شیکھر راؤ نے دعویٰ کیا تھا کہ وزیراعظم نے اضافی تحفظات کے سلسلہ میں ہمدردانہ غور کا تیقن دیا ہے۔ وزیراعظم نے گجرات میں پٹیل برادری کو تحفظات کی فراہمی عملاً مسترد کردیا اور کہا کہ سپریم کورٹ کی مقررہ حد سے تجاوز ممکن نہیں ہے اور کوئی بھی سپریم کورٹ کے خلاف نہیں جاسکتا۔ وزیراعظم کی اس وضاحت کے بعد دیکھنا یہ ہے کہ تلنگانہ اور آندھراپردیش کی حکومتیں اضافی تحفظات کو بچانے کیلئے کیا حکمت عملی اختیار کریں گی۔ اگر وزیراعظم نے تلنگانہ کے موقف پر ہمدردانہ غور کا تیقن دیا ہے تو پھر انہیں آندھرا پردیش کے علاوہ بعض دیگر ریاستوں کی اسی نوعیت کی درخواستوں کو قبول کرنا پڑے گا۔ راجستھان ، مدھیہ پردیش اور ہریانہ میں 50 فیصد سے تحفظات کی فراہمی پر مقامی ہائی کورٹ نے روک لگادی ہے اور انہیں مرکز سے امید ہے کہ وہ ٹاملناڈو کی طرح اضافی تحفظات کو منظوری دے گی۔ واضح رہے کہ ٹاملناڈو کے 69 فیصد تحفظات جو دستور کے 9 ویں شیڈول میں شامل ہیں۔ اس کا تنازعہ بھی سپریم کورٹ میں زیر دوران ہے۔ اسی دوران وزیر فینانس ای راجندر نے وزیراعظم کے موقف سے اختلاف کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹاملناڈو کو کس طرح 69 فیصد تحفظات کی اجازت دی گئی ہے۔ کیا ٹاملناڈو ہندوستان کا حصہ نہیں ہے ؟ انہوں نے کہا کہ تحفظات کی فراہمی سماجی پسماندگی کی بنیاد پر عمل میں آتی ہے اور اس کا اختیار ریاستوں کو دیا جانا چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ مرکز سے موقف کی وضاحت کے بعد تلنگانہ حکومت آئندہ کی حکمت عملی طئے کرے گی۔ اسی دوران آندھراپردیش کے وزیر بہبودیٔ پسماندہ طبقات کے اچن نائیڈو نے کہا کہ ہم سپریم کورٹ کی مقرر کردہ حد سے واقف ہیں لیکن سماج کے مختلف گوشوں سے اٹھنے والے مطالبے پر ہمدردانہ غور کی ضرورت ہے۔ نہ صرف آندھراپردیش بلکہ بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں ہریانہ اور راجستھان میں بھی جاٹ اور گجر طبقات کو تحفظات فراہم کئے جو سپریم کورٹ کے مقرر حد سے زائد ہے ۔