نہ آنچ آئے گی تم پر وہ کہہ رہے ہیں مگر
بھروسہ کیسے کروں حسن کے شراروں کا
تحریک عدم اعتماد، اپوزیشن کی اخلاقی جیت
اقتدار ہمارا ہے۔ سیاست بھی ہماری ہی چلے گی۔ 2019 ء کے انتخابات میں بھی ہم ہی آگے آئیں گے۔ یہ خیالات مرکز کی بی جے پی حکومت نے تحریک عدم اعتماد میں کامیاب ہونے کے بعد اپنے ذہن کے گوشے میں گشت کروائے ہیں۔ لوک سبھا میں تلگودیشم سمیت اپوزیشن کی پیش کردہ مخالف مودی حکومت تحریک عدم اعتماد کو 325 نے مسترد کردیا اور 126 نے حمایت کی جبکہ ایوان میں 451 ارکان پارلیمنٹ موجود تھے۔ اس تحریک میں کامیابی کے بعد مودی حکومت کو حاصل ہونے والے متوقع تائیدی ووٹ کی تعداد 314 سے بڑھ کر 325 ہوگئے یعنی حکومت کو انا ڈی ایم کے کی بھی تائید حاصل ہوئی ہے۔ تحریک عدم اعتماد کو شکست ہونے کے بعد بی جے پی کے حوصلے بلند ہونا یقینی تھا۔ اس تحریک عدم اعتماد کو شکست غیر متوقع بھی نہیں تھی کیوں کہ اپوزیشن کو یہ اندازہ تھا کہ ان کی تحریک کو ووٹ نہیں ملیں گے تاہم ایوان کے ذریعہ اپوزیشن نے مودی حکومت کی خرابیوں اور خامیوں کو عوام کے سامنے لانے کی کوشش کی جس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہوئی ہے۔ تحریک عدم اعتماد کے مباحث میں حصہ لینے والے تمام اپوزیشن قائدین نے مودی حکومت کے 2014 ء کے وعدوں کی عدم تکمیل کی جانب مؤثر طریقہ سے توجہ دلائی مگر حکومت پر اپوزیشن کی ان تنقیدوں کا کوئی اثر دکھائی نہیں دیا۔ وزیراعظم مودی نے اپنی تقریر میں صرف صدر کانگریس راہول گاندھی کو ہی نشانہ بنایا اور کہاکہ راہول گاندھی کو ملک کا وزیراعظم بننے کی جلدی ہے اس لئے وہ ہاتھ پیر مار رہے ہیں۔ اس ملک کے عوام اس تاریخ سے اچھی طرح واقف ہیں جہاں صرف ایک خاندان کی حکمرانی ان پر مسلط کردی گئی تھی جس نے ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کردیا اور خود غرض و ذاتی مفادات کے لئے پھر ایک بار وہ مرکز میں اقتدار چاہتی ہے۔ صدر کانگریس راہول گاندھی نے بھی وزیراعظم مودی کو طنزیہ جملوں کے ذریعہ نشانہ بناکر عوامی مسائل کی جانب توجہ مبذول کروائی۔ مودی، ملک کے بڑے تاجروں کا بہت خیال رکھتے ہیں اور غریبوں، متوسط طبقہ کو فراموش کردیتے ہیں۔ وہ وعدوں کے ’’جملے‘‘ بولنے میں ماہر ہیں۔ راہول نے مودی کی جانب سے خود کو ’’پپو‘‘ کہنے پر بھی طنزیہ لہجہ میں کہاکہ آپ مجھے پپو کہیں یا کچھ اور مگر میرے دل میں آپ کے لئے نفرت پیدا نہیں ہوگی کیوں کہ میں کانگریسی ہوں اور میرا کام آپ تمام کو بھی کانگریسی بنانے کی کوشش کرنا ہے۔ راہول گاندھی نے ایوان میں وزیراعظم مودی پر شدید تنقید بھی کی اور بعدازاں ان سے گلے بھی ملے۔ بعدازاں ’’آنکھ‘‘ بھی ماری۔ ان حرکتوں پر اسپیکر سمترا مہاجن نے ان کی سرزنش بھی کی کیوں کہ ایوان میں کوئی بھی رکن وزیراعظم کے عہدہ کا احترام کرتے ہوئے ان کے گلے نہیں مل سکتا۔ ہر رکن کو ایوان کے آداب ملحوظ رکھنا ہوتا ہے۔ آخر راہول گاندھی نے پہلے مودی پر تنقید کی اور بعدازاں ان سے بغلگیر کیوں ہوئے یہ بی جے پی کے لئے حیرت کی بات ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کو اس تحریک عدم اعتماد سے کتنا سیاسی فائدہ ہوگا یہ تو عام انتخابات میں پتہ چلے گا لیکن ہندوستانی پارلیمانی تاریخ میں تحریک عدم اعتماد کوئی نہیں بات نہیں ہے۔ ایوان کے اندر سب سے زیادہ تحریک عدم اعتماد کا سامنا اندرا گاندھی نے کیا ہے۔ لوک سبھا میں اب تک 8 وزرائے اعظم کے خلاف 27 تحریک عدم اعتماد پیش کی جاچکی ہے جن میں سب سے زیادہ 15 تحریکوں کو اندرا گاندھی کے خلاف لایا گیا تھا۔ کانگریس کے وزرائے اعظم نے 23 مرتبہ اس طرح کی تحریکوں کا سامنا کیا ہے۔ لال بہادر شاستری اور پی وی نرسمہا راؤ نے 3 ، 3 مرتبہ تحریک عدم اعتماد کا سامنا کیا۔ مرار جی دیسائی کے خلاف 2 مرتبہ جبکہ جواہر لال نہرو، راجیو گاندھی، اٹل بہاری واجپائی اور نریندر مودی کو ایک ایک عدم اعتماد کی تحریک کا سامنا ہوا ہے۔ اس طرح کی تحریک جمہوریت کے مضبوط ستون کی علامت ہوتی ہے۔ ایوان میں ارکان کی بھاری اکثریت حاصل ہونے کے بعد مودی حکومت کی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہوا ہے کہ وہ اپوزیشن کے اٹھائے گئے سوالات کا جائزہ لے کر اپنی کارکردگی کو مؤثر بنائے۔ معیشت کو مستحکم بنانے، اقلیتوں، دلتوں کے مسائل حل کرنے اور ہجومی تشدد کے مسئلہ سے نمٹنے کے لئے حکومت کو سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے کیوں کہ ایوان میں پہلے ہی سے اکثریت رکھنے والی مودی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرکے اپوزیشن نے اپنا اخلاقی فرض پورا کیا ہے۔ یہ تحریک اکثریت کی جنگ نہیں بلکہ اخلاقی جیت ہے کیوں کہ اپوزیشن نے مودی اور ان کی حکومت کی ناکامیوں کی فہرست پیش کرنا چاہا تھا جس میں وہ کامیاب رہی۔ اب وزیراعظم مودی اپنی تقریر کے ذریعہ کانگریس پارٹی پر ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے کی غرض سے تحریک عدم اعتماد کا بیجا استعمال کرنے کا الزام لگارہے ہیں تو وہ بقول راہول گاندھی کے ’’کمزور‘‘ پڑگئے ہیں۔
وادی کشمیر اور شمال مشرقی ریاستیں
جموں و کشمیر میں محبوبہ مفتی حکومت کے استعفیٰ کے بعد گورنر راج کے دوران بھی صورتحال بے قابو دکھائی دیتی ہے۔ گزشتہ ایک ماہ کے دوران وادی کی صورتحال سے نمٹنے میں گورنر کے ہاتھ مضبوط ثابت نہیں ہوسکے۔ سابق سیول سرونٹ این این ووہرا نے جون 2008 ء میں جموں و کشمیر گورنر کی حیثیت سے ذمہ داری سنبھالی تھی۔ وہ اس سے قبل کشمیر کیلئے مرکز کے مصالحت کار بھی رہ چکے ہیں۔ 82 سالہ ووہرا کو وادیٔ کشمیر کی نازک صورتحال کا بخوبی اندازہ ہے لیکن سابق میں وادی کی کیفیت کا موجودہ صورتحال سے تقابل کیا جائے تو یہ گورنر کے لئے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ مرکز پر الزام ہے کہ اس نے جموں و کشمیر کو ملک کی دیگر ریاستوں کی طرح سمجھنے میں کوتاہی کی ہے خاص کر شمال مشرقی ریاستوں کے ساتھ مرکز کا رویہ مختلف ہے اور جموں و کشمیر کے معاملہ میں وہ الگ پالیسی رکھتا ہے۔ شمال مشرق میں ترقیاتی اقدامات کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں تو یہ عمل وادیٔ کشمیر میں بھی شروع کیا جاسکتا ہے۔ مرکز کے رویہ کے باعث یہ ریاست ملک کے دیگر ریاستوں سے ہٹ کر رہ گئی ہے۔ دستوری تقاضہ تو یہ ہے کہ حکومت ہند کو ملک کی ہر ایک ریاست کا احترام کرنا اور وہاں کے شہریوں کے مستقبل کا خیال کرنا ہوتا ہے۔ مرکز نے شمال مشرقی ریاستوں کیلئے دستوری ذمہ داریوں کو بروئے کار لانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جبکہ وادیٔ کشمیر کو نظرانداز کردینے کی شکایات عام ہوتی گئی ہیں۔ شمال مشرق میں بھی 1970 ء تا 1990 ء کے دہے میں بدامنی، تشدد اور کشیدگی کی صورتحال رہی لیکن حکومت نے ان ریاستوں کے تمام علیحدگی پسند گروپس کی کوششوں کے سامنے اپنی ترقیاتی پالیسیوںکو مؤثر طریقہ سے بروئے کار لایا جس کے نتیجہ میں شمال مشرقی ریاستوں میں اب صورتحال بہتر ہوئی ہے۔ یہی کیفیت وادیٔ کشمیر میں لائی جاسکتی ہے بشرطیکہ حکومت یہاں دستوری فرائض پر عمل کرے۔ گورنر راج کے دوران وادی کو پرامن ریاست بنانے میں کامیاب کوشش ہونی چاہئے۔