تحریک طالبان پاکستان منقسم، خان سجنا الگ ہو گئے

اسلام آباد ، 28 مئی (سیاست ڈاٹ کام) پاکستان میں ممنوعہ شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے مختلف گروہوں میں اختلافات اور ایک دوسرے پر حملوں کا سلسلہ تو جاری ہی تھا لیکن چہارشنبہ کو اس تنظیم کے ایک اہم گروپ خان سید سجنا نے تنظیم سے علیحدگی کا باضابطہ اعلان کردیا۔ اس گروپ کے ترجمان اعظم طارق نے ذرائع ابلاغ کو ایک بیان میں کہا کہ تحریک طالبان کا موجودہ انتظام ان کے بقول ایک ’منظم سازشی ٹولے کی وجہ سے نادیدہ ہاتھوں میں چلا گیا ہے‘۔ ممنوعہ تحریک کے سابق ترجمان اور مرکزی شوریٰ کے رکن اعظم طارق نے کہا کہ مختلف طریقوں سے موجودہ نظام کی اصلاح و اتحاد کی کوشش کی گئی مگر وہ کامیاب نہ ہو سکی۔ انھوں نے کہا کہ تحریک میں موجودہ نظام کے تحت ڈاکہ زنی اور بھتہ خوری کی جا رہی ہے اور مختلف مسالک کے عقائد و نظریات کے پرچار کی وجہ سے دوسرے حلقوں کے طالبان بدظن ہوئے ہیں۔ علیحدہ گروپ کا کہنا ہے کہ ’’وہ اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری، عوامی املاک کو نقصان اور دھماکوں کو حرام سمجھتا ہے اور اسلامی مدارس شیوخ عظام اور خانقاہوں کی عزت و احترام اور ان حضرات سے استفادہ پر یقین رکھتا ہے۔

‘‘ رواں ہفتے ہی یہ اطلاعات بھی موصول ہوئی تھیں کہ ممنوعہ تحریک کے امیر ملا فضل اللہ نے خان سید سجنا کو تحریک کے ایک کمانڈر کی حیثیت سے ہٹانے کا حکم دیا تھا جسے ماننے سے سجنا نے انکار کر دیا تھا۔ گزشتہ سال نومبر میں حکیم اللہ محسود کی ایک ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد خان سید سجنا کو تحریک کے سربراہ کا ایک مضبوط امیدوار سمجھا جارہا تھا لیکن طالبان شوریٰ کی طرف سے سوات سے تعلق رکھنے والے ملا فضل اللہ کو امیر منتخب کئے جانے کے بعد خان سید سجنا کا طالبان کے دیگر دھڑوں سے اختلاف شروع ہو گیا تھا۔ حکومت نے طالبان شدت پسندوں سے مذاکرات کے ذریعے ملک میں امن و امان بحال کرنے کی کوششیں شروع کی تھیں لیکن سرکاری مذاکراتی کمیٹی اور طالبان شوریٰ کی مارچ کے اواخر میں ایک ہی براہ راست نشست کے بعد سے یہ عمل فی الحال تعطل کا شکار ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار یہ کہہ چکے ہیں طالبان سے مذاکرات میں تعطل کی ایک وجہ اُن کی آپس کی لڑائی ہے۔