٭ دونوں ممالک کی تجارت اور سرمایہ کاری شدید طور پر
متاثر ،عالمی معیشت پر بھی مضر اثرات
٭ نائب وزیراعظم لیوہی چینی وفد کی قیادت کریں گے
واشنگٹن۔ 3 اپریل (سیاست ڈاٹ کام) امریکہ اور چین کے درمیان جو تجارتی کشیدگی پیدا ہوئی ہے، اس کی یکسوئی کیلئے دونوں ہی ممالک اب بے حد سنجیدہ نظر آرہے ہیں۔ اس سلسلے میں چہارشنبہ کو ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے جو بیان جاری کیا گیا ہے، اس کے مطابق چین سے تجارتی نوعیت کی بات چیت کا ایک بار پھر آغاز کیا جائے گا۔ تجارتی کشیدگی نے دونوں ہی ممالک کے کاروبار اور سرمایہ کاری کو شدید طور پر متاثر کیا ہے یعنی جو امریکی چین میں سرمایہ کاری کے خواہاں ہیں اور جو چینی، امریکہ میں سرمایہ کاری کے خواہاں ہیں، وہ تمام ہاتھ پر ہاتھ دھرے صرف دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کے مثبت نتائج کے منتظر ہیں جو آہستہ آہستہ اب عالمی معیشت کو بھی متاثر کرنے لگی ہے۔ بات چیت اگر ایک یا دو بار ناکام ہوجائے تو قابل فہم ہے لیکن آٹھ بار بات چیت کے باوجود کوئی مثبت نتائج سامنے نہ آنا یقینی طور پر ایک تشویشناک صورتحال ہے۔ چین اور امریکہ اب نویں بار بات چیت کی تیاریاں کررہے ہیں۔ عالمی تجزیہ نگاروں کا بھی کہنا ہے کہ دونوں ممالک اب کی بار کسی نہ کسی مثبت نتیجہ پر پہنچتے ہوئے دنیا کے لئے ایک خوشخبری ضرور لائیں گے۔ گزشتہ ہفتہ جو بات چیت ہوئی تھی، اسے امریکی وزیر مالیات نے تعمیری بات چیت سے تعبیر کیا تھا۔ اب کی بار چین کے نائب وزیراعظم لیوہی جنہیں صدر ژی جن پنگ کا قریبی رفیق سمجھا جاتا ہے، بات چیت کرنے والی چینی ٹیم کی قیادت کریں گے۔ اس دوران یو ایس چیمبر آف کامرس میں بین الاقوامی امور کے سربراہ مائیرون بریلینٹ نے کہا کہ بات چیت جس ماحول میں ہورہی ہے، وہ یقینی طور پر بے حد امید افزا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اور چین کے درمیان معاہدہ ہونے کے 90% حالات بن گئے ہیں تاہم انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ مشرق میں ایک کہاوت مشہور ہے کہ ’’ہاتھی نکل گیا دُم باقی رہ گئی‘‘ اس کے مصداق 90% کو مت دیکھئے بلکہ مابقی 10% کو دیکھئے جس کا حصول بے حد مشکل ہے۔ بات چیت کا سب سے اہم حصہ اسی 10% میں سے باہر آئے گا ۔ امریکہ ہمیشہ سے چین پر یہ الزام عائد کرتا آیا ہے کہ وہ (چین) اس کی ٹیکنالوجی کا سرقہ کرتا ہے اور پھر امریکی کمپنیوں سے تجارتی راز حاصل کرنے پر زور دیتا ہے، تاہم چین پر دباؤ ڈالنے کیلئے امریکہ سے 250 بلین ڈالرس کی مالیت کی چینی اشیاء پر زائد ٹیکس کا نفاذ کیا تھا جس پر جوابی کارروائی کرتے ہوئے چین نے بھی امریکہ کی 110 بلین ڈالرس مالیت کی اشیاء پر ٹیکس کا نفاذ کردیا ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ دونوں ممالک اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا موقف اپنانا نہیں چاہتے اور نویں بار بات چیت کیلئے رضامند ہوئے ہیں۔