غیر ملکی داعیان کو واپس بھیجنے وزارت داخلہ کی ہدایت ‘ حکومت کا فیصلہ مخفی ایجنڈہ کا حصہ ‘ علما کا رد عمل
محمد مبشر الدین خرم
حیدرآباد ۔ 28 ۔ اپریل : ہندوستان میں تبلیغی جماعت کو مودی دور حکومت میں کٹھن حالات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ ملک میں موجود مختلف جماعتوں و تنظیموں کو نشانہ بنانے کی حکمت عملی پر زعفرانی قوتیں عمل آوری شروع کرچکی ہیں ۔ ہندوستان کے تقریبا تمام شہروں میں دینی سرگرمیوں بالخصوص تبلیغ و اشاعت میں مصروف جماعت مودی حکومت کیلئے تکلیف کا باعث بننے لگی ہے ۔ مرکزی حکومت کی وزارت داخلہ کی جانب سے تمام ریاستوں کو جاری سرکیولر میں یہ احکام جاری کئے گئے ہیں کہ وہ اپنی ریاستوں میں مقیم غیر ملکی داعیان کو واپس انکے ملک روانہ کردیں۔ ان احکامات کے بعد اشاعت دین میں مصروف اس جماعت کے مستقبل کے متعلق مختلف گوشوں میں تفکرات پیدا ہوچکے ہیں چونکہ وزارت داخلہ کے احکامات کے مطابق تبلیغی جماعت شدت پسندی کو فروغ دے رہی ہے ۔ مسلمانان ہند کے درمیان تبلیغ و دعوت کا کام کرنے والی اس جماعت کے داعیان کو اپنے ممالک واپس بھیجنے کے احکام کی اجرائی سے اگر بیداری نہیں آتی ہے تو ایسی صورت میں ممکن ہے کہ آئندہ چند برسوں میں مرکزی حکومت ان ہی الزامات کے تحت جماعت پر پابندی عائد کردے ۔ تبلیغی جماعت کوئی سیاسی پشت پناہی والی جماعت نہیں ہے لیکن اس کا حلقہ اثر وسیع ہونے کے سبب سیاسی جماعتیں مبلغین تبلیغی جماعت سے نہ الجھنے میں عافیت تصور کرتی ہیں لیکن مودی حکومت جس نے ’ وکاس ‘ کے نام پر اقتدار حاصل کیا ہے لیکن عمل وہی کیا جارہا ہے جس کا ملک کی دوسری بڑی اکثریت کو خدشہ تھا ۔ ہندوستان میں تمام مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے دین پر چلنے کے علاوہ اس کی دعوت و پیغام کو عام کرنے کی اجازت حاصل ہے اور دین اسلام کی دعوت و تبلیغ کا کام سب سے زیادہ تبلیغی جماعت کی جانب سے ہوتا ہے اور اس سرزمین پر مختلف ممالک سے داعیان دین کی آمد برسوں سے ہوا کرتی ہے لیکن اب انہیں واپس روانہ کرنے کی بات کی جارہی ہے ۔ جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک زعفرانی قوتوں کا غلام بنتا جارہاہے ۔ مرکزی حکومت بلکہ وزیر اعظم سے بے انتہا قریب ایک مسلم قائد جن کا تعلق تبلیغی جماعت سے ہے وہ بھی اس معاملہ میں خاموش ہے جب کہ ملک کے مختلف صوبوں میں ان احکام کے بعد تبلیغ و دعوت کا کام کرنے والوں کے لیے مشکلات میں اضافہ ہونے لگاہے اور داعیان دین اس بات کو محسوس کرنے لگے ہیں ۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے اس مسئلہ پر کہا کہ حکومت کا یہ اقدام انتہائی غیر دانش مندانہ ہے اور حکومت کی جانب سے کی گئی کارروائی درست نہیں ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ تبلیغی جماعت کوئی شدت پسندی یا دہشت کی تعلیمات عام نہیں کرتی بلکہ محبت کے ساتھ اللہ سے جوڑنے کی کوشش کرنے والی جماعتوں میں تبلیغی جماعت شامل ہے ۔ مولانا رحمانی نے زعفرانی قوتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ملک کے مفادات کو تو دراصل وہ لوگ نقصان پہنچا رہے ہیں جو اذان ، بیٹی بچاؤ ، گھر واپسی جیسے معاملات پر نفرت پھیلاتے ہوئے عوام کو ایکدوسرے سے دور کررہے ہیں ۔ مولانا حافظ پیر شبیر احمد صدر جمعیتہ علمائے ہند نے حکومت کے اس فیصلہ کو مخفی منصوبہ کا حصہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ دستور ہند میں تمام مذاہب کے ماننے والوں کو سارے اختیارات دئیے گئے ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ ریاست تلنگانہ کے بعض اضلاع سے بھی اس بات کی شکایات موصول ہورہی ہیں کہ مبلغین کی تصویر کشی کی جارہی ہے ۔ مولانا حافظ پیر شبیر احمد نے بتایا کہ ریاست و ملک میں مخفی ایجنڈہ پر عمل آوری ملک کی سالمیت کے لیے خطرہ ثابت ہوسکتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دینی مدارس ، مسلم تنظیموں کو نشانہ بناتے ہوئے انہیں شدت پسند قرار دینے کی کوشش کی جارہی ہے جب کہ یہ بات بعید از حقیقت ہے ۔ انہوں نے ملک میں جاری زعفرانی دہشت گردی سے چوکنا رہنے کی ضرورت پر زور دیا ۔۔