تبدیلیٔ مذہب کا مطالبہ اور ہماری ذمہ داریاں

ابوزاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی القادری الملتانی

آج کا سب سے خطرناک مسئلہ تبدیلیٔ مذہب کا مطالبہ ہے۔ بعض فرقہ پرست غیر مسلم تنظیمیں مسلمانوں کو مذہب اسلام چھوڑنے کے لئے مالی فوائد اور دیگر سہولیات و مراعات کا جھانسہ دے رہی ہیں اور کہیں استبدادی طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ طرفہ تماشہ یہ کہ اس معاملے میں مخفی ایجنڈا اور مخصوص حکمت عملی کے تحت اربابِ حکومت مکمل خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں، جس کے باعث شرپسند عناصر کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور آئے دن نازیبا مطالبات، متنازعہ بیانات اور زبردستی مذہب تبدیل کرنے کے دل سوز واقعات پیش آرہے ہیں اور اسلام مخالف سرگرمیوں میں شدت پیدا ہو رہی ہے، جو نہ صرف مسلمانوں بلکہ تمام ہندوستانیوں کے لئے تشویش کا سبب ہے۔ اس طرح کے مطالبات سے نہ صرف امن و ہم آہنگی کی فضاء مکدر ہوگی، بلکہ فسادات کا بازار بھی گرم ہوگا۔ لہذا تیزی سے بدلتے ان حالات میں امت مسلمہ کے ہر باشعور فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ جذبات کا مظاہرہ کرنے کی بجائے علمی مباحث، عملی اقدامات اور دُور اندیش حکمت عملی کے ساتھ اس کا مقابلہ اور اس فتنہ کا سدباب کریں۔

سب سے پہلے ہمیں اپنے اندرونی مدافعتی نظام کو درست کرنا پڑے گا اور مخالفین اسلام کے اعتراضات کا جواب دینے سے پہلے ہمیں اپنے اندر تبدیلی لانا پڑے گا۔ صرف مذمتی بیانات دینے، احتجاجی ریلیاں منظم کرنے، تقریریں کرنے، مضامین لکھنے اور جلسوں کا انعقاد عمل میں لانے کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات پر زیادہ توجہ دینا چاہئے، ورنہ سادہ لوح مسلمان اغیار کی سازشوں کا آسانی سے شکار ہوسکتے ہیں۔ اگر ہم اسی طرح خوابِ غفلت اور دنیاوی مفاد میں غرق رہے تو عین ممکن ہے کہ کمزور ایمان اور ضعیف اعتقاد رکھنے والے لوگ ایمان کی دولت سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ (العیاذ باللہ)

اس ضمن میں ہماری سب سے پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ ہم تبدیلیٔ مذہب کے مطالبات سے قطعی خائف و مرعوب نہ ہوں۔ چوں کہ قوموں کی زندگی میں تبدیلی لانا اتنا آسان کام نہیں ہے، بعض اوقات اس کے لئے صدیاں درکار ہوتی ہیں۔ دوسری چیز یہ کہ ہمیں اس ذات پر بھروسہ و ایقان ہے، جو دِلوں کو پھیرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ جو لوگ آج تبدیلیٔ مذہب کا مطالبہ کر رہے ہیں، اگر اللہ نے ارادہ فرمالیا تو عین ممکن ہے کہ اسلام کی خوبیوں اور محاسن سے متاثر ہوکر وہی لوگ دنیا کو اسلام کی دعوت دینا شروع کردیں۔ حقیقت کے اس پہلو کو بھی ہمیں مدنظر رکھنا چاہئے کہ دنیا میں کسی بھی قوم کو کبھی دائمی غلبہ و حکومت حاصل نہیں رہی، آج جو لوگ حکومت و طاقت کے نشے میں چور ہوکر ایسے مطالبات کر رہے ہیں، ہو سکتا ہے کہ کل ان ہی لوگوں کی زندگی قابلِ رحم بن جائے۔

ہماری دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اپنے کردار، رفتار و گفتار، رہن سہن، خانگی و عوامی زندگی، ظاہری وضعداری و باطنی شائستگی، الغرض ہر عمل و فعل اور اپنی نفسانی حالت کو اسلامی اصول کے مطابق ڈھال لیں اور احکاماتِ خداوندی و فرامینِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر سختی کے ساتھ عمل پیرا ہو جائیں۔ قرآن حکیم کے مطابق جو لوگ رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی و سرتابی کرتے ہیں، گناہوں کے ارتکاب میں ملوث رہتے ہیں اور حدودِ شریعت سے تجاوز کرتے ہیں تو مصائب و آلام ان کا مقدر بن جاتے ہیں اور وہ عذاب الہٰی کے مستحق بن جاتے ہیں۔ چنانچہ رب کائنات کا ارشاد ہے: ’’پس ڈرنا چاہئے انھیں جو خلاف ورزی کرتے ہیں رسول کریم کے فرمان کی کہ انھیں کوئی مصیبت نہ پہنچے یا انھیں دردناک عذاب نہ آئے‘‘۔ (سورۃ النور۔۶۳)
کوئی پیشہ یا ملازمت ایسی نہیں، جہاں ہماری بدعنوانیاں، جعل سازیاں، مکاریاں اور عیاریاں بام عروج پر نہ ہوں، لہذا ہمیں سب سے پہلے اپنی زندگی کی روش بدلنا چاہئے۔ چوں کہ رحمت الہٰی کے دروازے اسی وقت کھلتے ہیں، جب ہم اپنے طرز حیات میں اسلامی تعلیمات کے مطابق تبدیلی لاتے ہیں۔ ارشاد ربانی ہے: ’’بے شک اللہ تعالیٰ نہیں بدلتا کسی قوم کی حالت کو، جب تک وہ لوگ اپنے آپ میں تبدیلی پیدا نہیں کرتے‘‘ (سورۃ الرعد۔۱۱) جب تک کوئی قوم اپنی نفسانی حالت اور اوصاف میں تبدیلی نہیں لاتی، اللہ تعالیٰ اس قوم کا مقدر نہیں بدلتا۔ عالم اسلام کو درپیش مسائل و مشکلات سے نجات پانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی سرنوشت میں تبدیلی لائیں اور اسلامی اقدار کو اپنے لئے حرز جاں بنالیں۔ اگر ہم اپنے کردار میں تبدیلی نہیں لائیں گے تو خدا کے عتاب سے بچ نہیں سکیں گے۔

ہماری تیسری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اپنی اولاد کی تربیت اسلامی خطوط پر کرنے کی بھرپور کوشش کریں۔ صحیح تربیت، اولاد کے حق میں والدین کا سب سے بڑا تحفہ ہوتی ہے۔ چوں کہ شخصیت کی تعمیر میں تربیت کا کردار بہت ہی اہم ہوتا ہے، جس سے انسان کی زندگی میں دوام اور شخصیت میں آفاقیت پیدا ہوتی ہے۔ اگر ہم اپنی اولاد کی تربیت اسلامی تعلیمات کے مطابق کریں تو ہم ہر معرکہ بڑی آسانی سے سَر کرسکتے ہیں، کیونکہ ذہنی تیاری کے بغیر انسان کا کوئی مقصد اور نصب العین پورا نہیں ہوتا۔ واضح رہے کہ جب سے خواتین ملازمت کرنے لگی ہیں، اولاد کی تربیت میں بڑی تیزی سے گراوٹ آئی ہے، جس کے منفی اثرات نہ صرف گھر، خاندان اور معاشرہ بلکہ ساری انسانیت پر مرتب ہو رہے ہیں۔ خواتین کی ملازمت سے معاشی فوائد تو حاصل ہوتے ہیں، لیکن اولاد تربیت سے محروم ہو جاتی ہے۔ آج ہم معاشی و اقتصادی طورپر تو مستحکم دِکھائی دے رہے ہیں، لیکن تصویر کا دوسرا اور سیاہ چہرہ یہ ہے کہ اولاد کی عدم تربیت کے سبب معاشرہ اخلاقی تنزل، معاشرتی و فکری انارکی اور خاندانی بکھراؤ کے دلدل میں تیزی سے دھنستا جا رہا ہے۔ ہمیں اس حقیقت کو ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہئے کوئی خاتون بحیثیت ماں اپنا کردار اسی وقت بحسن و خوبی نبھا سکتی ہے، جب وہ اپنا پورا وقت اپنے گھر کے لئے صرف کرے۔ اگر بچہ اعلیٰ کردار کا حامل اور تعلیم یافتہ ہوگا تو دولت و شہرت اس کے قدم چومے گی۔ اس کے برعکس اگر ہمارے پاس دولت کا انبار ہو اور اولاد عدم تربیت کے سبب گمراہی کا شکار ہو جائے تو ہم ساری دولت صرف کرکے بھی اسے اچھا شہری اور نیک انسان نہیں بناسکتے، جو ملک و قوم کے لئے سرمایۂ افتخار بن سکے۔

ہماری چوتھی ذمہ داری یہ ہے کہ ہم تمام مفادات کو خاطر میں لائے بغیر دامنِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی اَٹوٹ وابستگی کا اظہار کریں۔ مخالفین اسلام نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوتِ اسلام کے مشن سے روکنے کی ہرممکن کوشش کی، آپﷺ کے ساتھ سختیاں کی گئیں، اذیتیں دی گئیں، راہ میں کانٹے بچھائے گئے، لیکن جب اس پر بھی بات نہ بنی تو آپﷺ کو عرب کی بادشاہت، قوم کی سرداری، مال و دولت اور حسین و جمیل لڑکی سے نکاح کی پیشکش کی گئی۔ اس وقت رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر میرے ایک ہاتھ میں چاند اور دوسرے ہاتھ میں سورج رکھ دیا جائے اور کہا جائے کہ مہر و ماہ کے عوض میں اس کام کو ترک کردوں تو یہ مجھے منظور نہیں‘‘۔ وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم غلامی مصطفیﷺ کا ثبوت دیں اور دنیا سے کہہ دیں کہ ’’اگر ہمارے ایک ہاتھ میں امریکہ اور دوسرے ہاتھ میں برطانیہ کی زمام حکومت تھما دی جائے، تب بھی ہم دامنِ مصطفیﷺ کو نہیں چھوڑیں گے‘‘۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین پر استقامت نصیب فرمائے۔ (آمین)