تاریخی ٹولی مسجد کاروان کی موقوفہ اراضی پر تعمیر شادی خانوں کے انہدام کی ہدایت !

حیدرآباد ۔ 8 جون (سیاست نیوز) آندھراپردیش اور ریاست تلنگانہ میں سب سے زیادہ اور قیمتی اوقافی جائیدادیں حلقہ اسمبلی کاروان میں واقع ہیں اور اس حلقہ کی خاص بات یہ ہیکہ یہاں ہندو اور مسلم لینڈ گرابرس میں ایسا مثالی اتحاد ہیکہ ہندوستان میں اس کی کہیں اور مثال نہیں ملتی۔ ان لینڈ گرابروں نے اب تک ہزاروں کروڑ کی موقوفہ جائیدادوں کو ہڑپتے ہوئے آخرت کی تباہی کا سامان کرلیا ہے۔ اوقافی جائیدادیں ملت کی امانت ہیں اور اس کی حفاظت ہر مسلمان کا فریضہ ہے۔ چنانچہ سال 2006ء سے ایڈیٹر سیاست نے اردو اخبارات کے دیگر مدیران کے ساتھ مل کر اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کا بیڑا اٹھایا، جس کے نتیجہ میں اللہ کی جائیدادوں کے دشمنوں میں ہلچل پیدا ہوگئی تھی۔ حلقہ اسمبلی کاروان میں ٹولی مسجد اپنی خوبصورت فن تعمیر اور قیمتی اراضیات کیلئے اپنی ایک منفرد پہچان رکھتی ہے۔ عبداللہ قطب شاہ کے دور میں میر موسیٰ خاں محل دار نے 1671 میں اس کی تعمیر کروائی تھی۔ اس مسجد کے تحت 27 ایکڑ 30 گنٹے 18 گز درج وقف اراضی ہے۔ اس کی موجودہ بازاری قیمت 600 تا 1000 کروڑ روپئے بتائی جاتی ہے لیکن خوف خدا اور عذاب قبر سے بے خبر لینڈ گرابروں نے اس کی بیشتر اراضی پر سیاسی سرپرستی میں ناجائز قبضہ کرلیا۔ حد تو یہ ہیکہ اس اوقافی جائیداد پر ایک شمشان گھاٹ کیلئے 7 ہزار گز اراضی بھی دے دی گئی حالانکہ وہاں ایک مسلم قبرستان تھا۔ لینڈ گرابروں نے ٹولی مسجد کی اراضی پر تین وسیع و عریض شادی خانے تعمیر کئے جارہے ہیں جبکہ ایک اور شادی خانہ تعمیر ہوچکا ہے جہاں ہر روز کوئی نہ کوئی تقریب منعقد ہوتی ہے۔ اس طرح اوقافی اراضیات پر شادی خانے تعمیر کرتے ہوئے لینڈ گرابرس نے انہیں آمدنی کا مستقل ذریعہ بنا لیا ہے۔ اس کے خلاف اوقافی اراضیات کے تحفظ میں مصروف دکن وقف پروٹیکشن سوسائٹی اور جہدکاروں نے کافی جدوجہد کی۔ آج ان کی جدوجہد کو اس وقت غیرمعمولی کامیابی حاصل ہوئی جب تلنگانہ ہائیکورٹ کے کارگذار چیف جسٹس دلیپ سی بھوسلے اور جسٹس ایس وی بھٹ پر مشتمل ڈیویژن بنچ نے جی ایچ ایم سی کو ہدایت دی کہ وہ اس موقوفہ اراضی پر تعمیر کئے جارہے شادی خانوں کو قانون کے تحت کارروائی کرے۔ کاروان کے ساکن وقف جہدکار محمد عبدالرؤف کی جانب سے اس سلسلہ میں مفاد عامہ کے تحت ایک درخواست داخل کی گئی تھی۔ ریاست کے ممتاز قانون داں جناب عثمان شہید ایڈوکیٹ اور ان کے فرزند عدنان شہید ایڈوکیٹ نے اس مقدمہ کی کامیاب پیروی کی۔ جناب عثمان شہید ایڈوکیٹ کے مطابق ٹولی مسجد سے متصل اراضی موازی 3 ایکڑ پر غیرمجاز تعمیر کردہ شادی خانوں کو منہدم کرنے کیلئے داخل کردہ درخواست منظور کرتے ہوئے عدالت نے محکمہ بلدیہ کو ہدایت دی کہ وہ اس غیرمجاز قبضہ کے خلاف قانون بلدیہ کے تحت انہدامی کارروائی کرے۔ ساتھ ہی درخواست گذار کو ہدایت دی گئی ہیکہ وہ اس حکم کی عمل آوری کیلئے محکمہ بلدیہ میں درخواست داخل کرے جس پر عمل کرتے ہوئے متعلقہ عہدیدار غیرمجاز تعمیرات کو منہدم کردے۔ درخواست گذار کو یہ بھی ہدایت دی گئی ہیکہ وہ بھی وقف بورڈ میں تحت دفعہ 54 غیرمجاز قبضوںکی برخاستگی کیلئے علحدہ درخواست داخل کرے، جس پر وقف بورڈ عہدیدار ازروئے قانون عمل کریں۔ اس فیصلہ کی خبر جنگل کی آگ کی طرح سارے شہر میں پھیل گئی۔ خاص طو رپر کاروان کے غریب مسلمانوں نے لینڈ گرابرس کے خلاف عدالتی فیصلہ کا خیرمقدم کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا اور نمازشکرانہ ادا کی۔ یاد رہے کہ 28 جنوری 2015ء کو ڈپٹی چیف منسٹر جناب محمود علی نے سکریٹریٹ میں ڈسٹرکٹ کلکٹر کمشنر پولیس اور کمشنر بلدیہ (اسپیشل آفیسر) کا ایک اجلاس طلب کرتے ہوئے موقوفہ جائیدادوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کی ہدایت دی تھی۔ دکن وقف پروٹیکشن سوسائٹی کے صدر عثمان الہاجری اور ان کی رفقاء مقبول الہاجری، محمد عنایت توکلی، سید کریم الدین شکیل ایڈوکیٹ، فاروق، محمد چاند پاشاہ اور دیگر نے ٹولی مسجد کی اراضیات کے تحفظ میں ایڈیٹر سیاست جناب زاہد علی خاں کی خصوصی دلچسپی و سرپرستی پر اظہارتشکر کیا، ساتھ ہی ڈپٹی چیف منسٹر مسٹر محمود علی سے بھی اظہارتشکر کیا جنہوں نے اعلیٰ عہدیداروں کو موقوفہ جائیدادوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کی ہدایت دی تھی۔