حیدرآباد ۔ 7 ۔ جنوری : تعلیمی اداروں کے قیام کا مقصد نو خیز نسل کو زیور تعلیم سے آراستہ کرتے ہوئے انہیں ملک و ملت کی ترقی و خوشحالی میں اہم رول ادا کرنے کے قابل بنانا اور علم کی روشنی پھیلانا ہوتا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ بدلتے دور کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں کے قیام کے اغراض و مقاصد بھی بدل گئے ہیں اب صرف روپیہ پیسے کو ہی اہمیت دی جارہی ہے ۔ اس کی مثال ہمارے شہر حیدرآباد فرخندہ بنیاد کے قدیم ترین تعلیمی اداروں میں سے ایک ’ سٹی کالج ‘ ہے اب یہ تاریخی کالج کی عظیم الشان عمارت تعلیمی مرکز کی بجائے فلموں کی شوٹنگ کے مرکز یا عارضی اسٹوڈیو میں تبدیل ہوتاجارہا ہے اور اس کے لیے محکمہ تعلیمات پوری طرح ذمہ دار ہے ۔ حال ہی میں اس کالج کو ایک فلم کی شوٹنگ کے لیے آوارہ بچوں کے مرکز برائے نگہداشت میں تبدیل کردیا گیا اور کالج کی چھت پر شوٹنگ کے وزنی کیمرے و آلات پہنچائے گئے اس طرح اس تعلیمی مرکز کی توہین کی گئی ۔ واضح رہے کہ نظام ہشتم نواب میر محبوب علی خاں بہادر نے 1865 کے اوائل میں مدرسہ دارالعلوم کے نام سے پہلا سٹی اسکول قائم کیا بعد میں آصف سابع میر عثمان علی خاں بہادر نے اسے سٹی ہائی اسکول میں تبدیل کردیا اور 1921 میں سٹی ہائی اسکول کو سٹی کالج کی موجودہ عمارت میں منتقل کیا گیا ۔ اسی سال عثمانیہ یونیورسٹی نے 30 طلبہ کے ساتھ اس کالج میں ایف اے ( انٹرمیڈیٹ سیکشن ) شروع کیا جس کا ذریعہ تعلیم اردو ہی تھا ۔ 1925 میں اس اسکول کو ترقی دے کر کالج کا درجہ دیا گیا
اور وہ سٹی کالج کی حیثیت سے شہرت پا گیا ۔ 1956 میں انٹرمیڈیٹ کورس ( ایف اے ) کو عثمانیہ یونیورسٹی نے برخاست کردیا اور اس کی جگہ پری یونیورسٹی کورس پی یو سی شروع کیا گیا ۔ 1962 میں یہاں بیچلر آف سائنس کورس ( بی ایس سی ) شروع کرتے ہوئے اسے سٹی سائنس کالج کا نام دیا گیا ۔ 1965 میں حکومت نے سٹی سائنس کالج کو حاصل کرتے ہوئے اس کا نام گورنمنٹ سٹی سائنس کالج رکھدیا ۔ 1967 میں گورنمنٹ سٹی سائنس کالجس میں بی اے ، بی کام کے کورس شروع کئے گئے اور وہ گورنمنٹ سٹی کالج سے موسوم ہوگیا ۔ اب یہ کالج بی ایس سی ، بی اے ، بی کام کے بشمول 22 انڈر گریجویٹ کورس کا پیشکش کرتا ہے ۔ 2001 اور 2003 میں بالترتیب سٹی کالج میں بائیو ٹکنالوجی اور ریاضی میں ماسٹر آف سائنس پروگرامس متعارف کروائے گئے ۔ کالج کی بائیو ٹکنالوجی لیاب دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔ واضح رہے کہ 8 لاکھ کے مصارف سے 1921 میں تعمیر کردہ اس کالج کو ہم ہندوستانی اور اسلامی فن تعمیر کا حسین امتزاج کہہ سکتے ہیں ۔ سلمان خان کی فلم ’تیرے نام ‘ کی شوٹنگ بھی اسی کالج میں ہوئی تھی اور اس وقت تاریخی آثار کا درجہ رکھنے والی عمارت کا رنگ بدلتے ہوئے سرخ کردیا گیا اور اب تک اس سرخ رنگ کو تبدیل نہیں کیا گیا ۔ راقم الحروف نے دیکھا کہ کالج کی عمارت انتہائی خستہ ہے ۔ 2004 میں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن سے اسے خود مختار ادارہ کا درجہ دینے کے بعد NAAC نے بھی سٹی کالج کو اے گریڈ موقف عطا کیا اس کے باوجود حکام کی لاپرواہی کے نتیجہ میں یہ باوقار ادارہ بوسیدگی کا شکار ہوتا جارہا ہے ۔
محکمہ تعلیم اگر سٹی کالج کی تاریخی عمارت کو فلموں کی شوٹنگ کے لیے کرائے پر دیتے رہے گا تو ایک دن ایسا آئے گا کہ موسیٰ ندی کے کنارے اور آندھرا پردیش ہائی کورٹ ( عدالت العالیہ ) سے متصل سٹی کالج ایک اسٹوڈیو میں تبدیل ہوجائے گا اور ڈائرکٹرس کبھی اس دانش گاہ کو بچوں کی جیل میں تبدیل کریں گے تو کبھی اس کو فلمی اسکرپٹ کے مطابق غنڈوں کے اڈے میں تبدیل کردیا جائے گا ۔ اسی طرح سٹی کالج کو فلمی اسکرپٹس کے مطابق ڈائرکٹرس اور پروڈیوسر کسی بھی چیز میں تبدیل کرسکتے ہیں ۔ بزرگ شہریوں کے خیال میں تاریخی سٹی کالج کی نہ صرف تزئین نو کی ضرورت ہے بلکہ اس کے تجارتی مقاصد کے استعمال کو بھی روکا جانا ضروری ہے ۔ اس سلسلہ میں حکومت فوری مداخلت کرے تب ہی شہر کے اس قدیم تعلیمی مرکز کو بچایا جاسکتا ہے ۔۔