تاریخی سٹی کالج میں مسلم طلباء کے مستقبل سے کھلواڑ

امتحان فیس داخل کرنے سے انکار ، طلباء کو تعصب کی زد میں آنے سے بچانے انٹر بورڈ سے اپیل
حیدرآباد ۔ یکم ۔ دسمبر : ( نمائندہ خصوصی ) : ملک میں اگر تعلیمی شعبہ میں ہی تعصب برتا جائے ، ہندو اور مسلم طلبہ کے درمیان تفریق کی جائے تو آنے والے دن کتنے خطرناک ہوں گے اس کا تصور کر کے ہی دل کانپ اٹھتا ہے ۔ فرقہ پرستوں نے آزادی کے بعد سب سے پہلے اردو زبان کو اپنے تعصب کا نشانہ بنایا ۔ حالانکہ اردو وہ زبان ہے جس نے ملک کی آزادی میں اہم رول ادا کیا ہے ۔ آزادی کے متوالوں کو اس زبان نے انقلاب زندہ باد کا جاندار نعرہ دیا ۔ اردو تحریروںکے باعث ہی ہندوستانیوں کے ذہنوں و قلوب میں انقلاب کی شمعیں روشن ہوئیں ۔ شہرحیدرآباد فرخندہ بنیاد میں اردو کے حوالے سے تاریخی سٹی کالج بہت مشہور ہے ۔ اس کالج کی خوبصورت عمارت کو بلا شبہ فن تعمیر کا شاہکارکہا جاتاہے ۔ اس کالج کے سائے میں ہندو ، مسلم ، سکھ ، عیسائی طلبہ پڑھائی کرتے ہوئے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے ۔ کوئی چیف منسٹر بنا تو کسی کو گورنر بننے کا اعزاز حاصل ہوا ۔ اسی طرح کئی ماہرین تعلیم ، اعلی پولیس عہدیدار ، سیاستداں ، صحافی ، ادبا و شعراء اور اپنے زمانے کے مشہور و معروف کئی کھلاڑی سٹی کالج کی پیداوار ہیں ۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ اب اس سٹی کالج میں محبت و مروت اور ہمدردی کی جگہ تعصب معاندانہ رویہ اور غفلت و بے حسی نے لے لی ہے ۔ اس کالج میں انٹر میڈیٹ سال اول اور دوم میں طلبہ کی ایک کثیر تعداد ہے لیکن ان طلباء میں سے کئی طلباء کو کالج انتظامیہ سالانہ امتحانات میں شرکت سے روکنے کی بھر پور کوشش کررہا ہے ۔ طلباء اور اولیائے طلباء نے بتایا کہ انہیں حاضری کم ہونے کا بہانہ بناکر امتحانات میں شرکت سے روکا جارہا ہے ۔ اگرچہ امتحانات کی فیس ستمبر میں داخل کرنی تھی لیکن کالج انتظامیہ نے ان طلباء کو تتکال اسکیم کے تحت فیس داخل کرنے کے لیے کہا لیکن اب 6 دسمبر تتکال اسکیم کے تحت فیس داخل کرنے کی آخری تاریخ ہے ۔ اس کے باوجود کم از کم 32 مسلم طلباء کو فیس داخل کرنے کا موقع نہیں دیا جارہا ہے ۔ طلبہ 6 دسمبر سے قبل 500 روپئے اضافی فیس کے ساتھ امتحان کی فیس داخل کرسکتے ہیں اور ایسے طلبہ جن کی حاضری کم ہو وہ حاضری سے استثنیٰ کی علحدہ 500 روپئے فیس ادا کرتے ہوئے امتحانات میں شریک ہوسکتے ہیں لیکن ان مسلم طلبہ کو فیس داخل کرنے کا موقع ہی نہیں دیا جارہا ہے ۔ طلباء نے بتایا کہ مسلسل غیر حاضر رہنے والے غیر مسلم طلباء کو فیس کے ادخال کا موقع دیا گیا ہے جس سے ان میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ ان سے جانبداری برتی جارہی ہے اور تعصب کا مظاہرہ کیا جارہا ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان طلباء کی مدد کرنے اور انہیں امتحان میں شرکت کا حق دلانے کے لیے کوئی آگے نہیں آرہا ہے ۔ طلباء نے بتایا کہ انہوں نے ریاستی حقوق انسانی کمیشن کے سربراہ جناب عابد رسول خاں سے بھی نمائندگی کی۔ طلبہ نے یہ بھی بتایا کہ ریاضی پڑھانے والے لکچرر طلباء کو مبینہ طور پر یہ کہتے ہوئے واپس کررہا ہے کہ اوپن انٹرمیڈیٹ سے تعلیم مکمل کرلو ۔ یہ لکچرر پھر طلبہ سے غیر مہذب انداز میں بات کرتا ہے ۔ محمد تحسین علی نے جن کا لڑکا انٹر میڈیٹ میں زیر تعلیم ہے نے بتایا کہ ایسے طلباء کو ہی نشانہ بنایا جارہا ہے جنہوں نے زبان دوم ہندی کی بجائے اردو اور عربی لیا ہے ۔ جناب محمد تحسین علی کے مطابق پرنسپل ایم چندراکلا کسی اولیائے طلبہ کی بات سننے کے لیے تیار ہی نہیں ۔ الٹا وہ مبینہ طور پر یہ کہتی ہیں ’’ جو چاہے کرلو ‘‘ بتایا جاتا ہے کہ مضمون واری بہتر نتائج کے لیے مسلم طلباء کو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ اولیائے طلبہ نے سکریٹری بورڈ آف انٹر میڈیٹ ، پرنسپال سکریٹری محکمہ تعلیمات مسٹر وکاس راج سے اپیل کی ہے کہ اس معاملہ میں مداخلت کرتے ہوئے طلباء کا قیمتی سال ضائع ہونے سے بچائیں ۔ ڈپٹی چیف منسٹر محمود علی بھی اس جانب توجہ دیں تو ان بچوں کا ایک قیمتی سال بچ سکتا ہے ۔ واضح رہے کہ ستمبر میں بھی اردو کے نام پر قائم سٹی کالج میں اردو دشمنی کا واقعہ پیش آیاتھا ۔ جہاں انٹر میڈیٹ میں زبان دوم کی حیثیت سے طلبہ پر صرف ہندی لینے کے لیے دباؤ ڈالا گیا تھا لیکن سیاست میں رپورٹ کی اشاعت کے بعد اس تعصب سے گریز کیا گیا ۔ بہر حال اب دیکھنا یہ ہے کہ سکریٹری بورڈ آف انٹر میڈیٹ کیا کارروائی کرتے ہیں ۔۔