منامہ 31 جنوری (سیاست ٹاٹ کام) بحرین میں بعض تارکین وطن وہاں کے ایمگریشن طریقہ کار کو فرضی عدالتی معاملات کے ذریعہ مسلسل دھوکہ دے رہے ہیں اور اس کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ ایسا کرنے سے انھیں ملک چھوڑنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ ایک سرکاری عہدہ دار نے یہ بات بتائی۔ یہ الزامات جسٹس برائے وزارت انڈومینٹس اور امور اسلامی کے اسسٹنٹ انڈر سکریٹری خالد رجاج نے شوریٰ کونسل کے ہفتہ وار اجلاس میں عائد کئے۔ انھوں نے یہ تک کہا کہ اس معاملے میں جو لوگ بھی ملوث ہیں، وہ بحرینی شہریوں اور دیگر تارکین وطن کے ساتھ سودا کرلیتے ہیں اور اس طرح فرضی مالیاتی بحران کھڑا کیا جاتا ہے، جس کے بعد تارکین وطن کی غیر قانونی رہائش کے باوجود انھیں ملک میں قیام کی اجازت دی جاتی ہے۔ ایسے تارکین وطن جنھیں بحرین میں مزید رہائش اختیار کرنے کے لئے ویزوں میں توسیع کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے، وہ
اس طرح ملک میں رہائش اختیار کرنے کا غیر قانونی راستہ اختیار کرتے ہیں اور اس کے لئے بحرینی شہریوں یا دیگر تارکین وطن سے سودے بازی ہو جاتی ہے، جیسے بینک میں ڈپازٹ نہ ہونے کے باوجود چیک جاری کرنا یا پھر کسی کے خلاف شکایت کرنا کہ فلاں فلاں شخص ان کی رقم واجب الادا ہے، جو اس نے قرض لینے کے بعد واپس نہیں کی۔ اس طرح کے معاملات کا فیصلہ ہونے تک شکایت کنندہ اور جس کے خلاف شکایت کی گئی ہے، انھیں ملک چھوڑنے کی اجازت نہیں دی جاتی، جب کہ ایسا کرنے پر ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کی جاتی۔ وزارت داخلہ ایسے افراد کو ملک چھوڑنے کی ہدایت نہیں کرتی، جن کے معاملات یا مقدمات عدالت میں زیر دوران ہیں اور اس طرح وہ ملک میں ہی رہ جاتے ہیں۔ شوریٰ کونسل کو اب اس معاملے میں سپریم جوڈیشیل کونسل کی رپورٹ کا انتظار ہے، جہاں اب یہ دیکھنا ہے کہ کیا ایسے افراد کو بھی ملک چھوڑنے کی اجازت دی جاسکتی ہے، جن کے خلاف عدالتوں میں مقدمات زیر دوران ہیں۔ مسٹر رجاج کا کہنا ہے کہ بینکس کو تارکین وطن کو قرضہ جات کی منظوری سے قبل انتہائی بااعتماد شخص سے طمانیت حاصل کرنی چاہئے، بالفاظ دیگر گیارنٹی ایسی ہونی چاہئے، جس پر آنکھ بند کرکے بھروسہ کیا جاسکتا ہو۔