نافرمان اولاد اور ظالم بہوؤں کے ستائے ہوئے لوگوں کا مرکز
غیر مسلم شخص کی انسانیت نوازی 6 سال سے ناشتے کا انتظام
حیدرآباد ۔ 2 ۔ دسمبر : ( ابوایمل ) : زمانہ جتنی تیزی سے ترقی کررہا ہے انسانی اقدار اسی تیزی سے زوال پذیر ہورہی ہیں جہاں خصوصی طور پر ایک انسان کو دوسرے انسان سے کوئی ہمدردی باقی نہیں رہی خصوصی طور پر ناخلف اولاد اپنے والدین کے ساتھ جو سلوک کررہی ہے اسے ضبط تحریر لانا بے حد مشکل ہے ۔ ایسے ہی بے سہارا اور لا علاج مریضوں کو جو ذہنی توازن کھو بیٹھتے ہیں اور جنہیں حرف عام میں لوگ ’’ پاگل ‘‘ کہتے ہیں ، آرام گھر لایا جاتا ہے ۔ جو شیورام پلی چوراستہ کے قریب واقع ہے ۔ جہاں ان کی تمام ضرورتوں کا خیال رکھا جاتا ہے ۔ حیدرآباد کی سابق مئیر روڈا میستری کی کوششوں سے 16 ایکڑ اراضی پر اس کا قیام عمل میں آیا تھا ۔ پہلے پہل آرام گھر کاروان کے ایک مکان میں 2 اکٹوبر 1957 کو قائم کیا گیا تھا اور1962 میں اسے شیورام پلی منتقل کیا گیا ۔ یہاں 52 مرد اور 60 خواتین ہیں ۔ نمائندہ خصوصی نے آرام گھر کی تاریخ سے واقفیت حاصل کرنے جب وہاں کا رخ کیا تو وہاں کے صدر نشین جناب ایم اے شکور نے بتایا کہ مہدی نواز جنگ آرام گھر کے پہلے بانی و صدر نشین تھے ۔ انہوں نے کہا کہ مہدی نواز جنگ وہی شخصیت ہیں جنہوں نے ریڈہلز پر کینسر ہاسپٹل قائم کیا اور آج کے پاش علاقہ بنجارہ ہلز کو آباد کرنے میں بھی ان کا بڑا اہم رول رہا ہے ۔ انہوں نے ہی وہاں 2000 گز پر پہلا مکان تعمیر کروایا تھا ۔ بہر حال ، قارئین ہم بات کررہے تھے آرام گھر کی جس کے قیام کا بنیادی مقصد ان لوگوں کو سہارا فراہم کرنا ہے جن کا دنیا میں حقیقتاً کوئی پرسان حال نہیں یا پھر ایسے حضرات جن کے اپنوں نے انہیں بیگانہ کردیا ۔ روڈامیستری ایک پارسی خاتون تھیں لیکن انہوں نے آرام گھر کے قیام کے لیے درکار جس اراضی کے حصول کے لیے انتھک محنت کی ، اسے آج بھی یاد کیا جاتا ہے ۔ شکور صاحب نے ایک بات اور بتائی کہ پہلے آرام گھر میں صرف لاعلاج مریضوں کو رکھا جاتا تھا لیکن اب وہ مقصد نہیں رہا ۔ حیدرآباد کے تمام 62 پولیس اسٹیشنوں کی حدود سے تعلق ر کھنے والے لاوارث لوگوں کو بھی یہاں رکھا جاتا ہے ۔ آرام گھر کے قیام کے بعد اس علاقہ کا نام بھی آرام گھر ہی پڑ گیا ۔ یہاں ایک ڈاکٹر ہمیشہ موجود رہتا ہے جو مریضوں کو درکار فوری علاج فراہم کرتا ہے ۔ نمائندہ خصوصی یہ بات جاننے کے لیے بے قرار تھا کہ آخر یہاں رہنے والے لوگوں کا خاندانی پس منظر کیا ہے ۔ اس معاملہ میں شکور صاحب کے علاوہ یہاں کے سپرنٹنڈنٹ لعل باشاہ نے رہنمائی کی ۔ لعل جان صاحب یہاں 24 گھنٹے موجود رہتے ہیں اور زیر علاج مریضوں کی ہر طرح سے مدد کرنے ہمیشہ تیار رہتے ہیں ۔ لہذا ہماری ملاقات سبرامنیم شاستری نامی ایک 64 سالہ شخص سے ہوئی جو کسی زمانے میں سرکاری انجینئر تھے ۔ ان کا تعلق ویسٹ گوداوری سے ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں راتوں میں اٹھنے کی بیماری لاحق تھی جس سے ان کی بیوی اور بیٹے کو سخت مشکلات کا سامنا تھا ۔ انہوں نے اس کا حل یہ ڈھونڈا کہ انہیں آرام گھر لے آئے اور اب حالت یہ ہے کہ ہر چھ ماہ میں ایک بار ملاقات کرنے کے لیے ماں بیٹے آرام گھر آتے ہیں ۔ سبرامنیم سوامی نے بتایا کہ وہ ECIL میں انجینئر تھے لیکن اب انہیں ایسا لگتا ہے جیسے انہوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارنے کے لیے خود کو ٹھیک سے انجینئر نہیں کیا ورنہ ان کی بیوی اور بیٹا ان کے ساتھ ایسی حرکت کیوں کرتے ۔ قارئین آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ مسٹر سوامی ہی ایسے واحد شخص نہیں ہیں دیگر لوگوں میں ایسی خواتین بھی ہیں جوا پنی بہوؤں کے ظلم کا شکار ہیں اور نافرمان اولاد کا دکھ سہتے سہتے کچھ لوگ یہاں اپنی خوشی سے آکر رہنے لگے ہیں ۔ ان کی بس یہی ایک شکایت ہے کہ جب تک وہ تندرست تھے ، کماتے تھے ، اس وقت تک ان کی اولاد کا برتاؤ ان کے ساتھ مناسب رہا لیکن اب وہ اپنے والد کو ہی خود پر بوجھ تصور کرتے ہوئے ’’ اپنے ‘‘ گھر میں رکھنا نہیں چاہتے ۔ ان کا خون سفید ہوگیا ہے ۔ بس ، ایسے ہی بے گھر لوگوں کا سہارا ہے آرام گھر ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی دلچسپ ہوگا کہ آرام گھر کے مکینوں کے لیے بیگم بازار کا ایک مارواڑی تاجر گذشتہ 6 سال سے تقریبا 110 افراد کے لیے بلا ناغہ ناشتہ فراہم کررہا ہے اور وہ بھی عمدہ قسم کا ۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ ناشتہ میں ہر روز ایک نیا آئٹم ہوتا ہے اور یہ سلسلہ گذشتہ 6 سال سے جاری ہے۔ ایک ایسا ادارہ جو خانگی مینجمنٹ کے ذریعہ ایک سوسائٹی کے تحت چلتا ہے ۔ ویسے آرام گھر میں آرام تو بہت ہے لیکن یہاں کوئی بھی اپنی خوشی سے نہیں آتا ۔ تاہم اگر آرام گھر جیسے شیلٹرس کا سہارا نہ ہو تو بے سہارا اور اپنوں کی جانب سے ٹھکرائے ہوئے لوگ کہاں جائیں گے ۔ ویسے تو شہر میں دیگر بیت المعمرین بھی ہیں جنہیں Home for aged کہا جاتا ہے لیکن آرام گھر ایسے لوگوں کا ٹھکانہ بھی ہے جہاں پولیس آوارہ گھومنے والے افراد کو بھی لاکر رکھتی ہے جو باہر کی دنیا میں دوسروں کے لیے خطرہ بن جاتے ہیں ۔ آرام گھر میں سماج اور خاندان کے ستائے ہوئے لوگوں کو پناہ تو مل جاتی ہے لیکن اس کے لیے وہاں کے وضع کردہ کچھ ضابطوں کی تکمیل کرنی پڑتی ہے ۔ جس کے بعد ہی آرام گھر میں پناہ حاصل کی جاسکتی ہے ۔ ہماری دعا ہے کہ آپ اپنے ہی خاندان کے ساتھ ’’ آرام ‘‘ سے زندگی بسر کریں تاہم اگر ایسا نہیں ہوا تو آرام گھر آپ کی خدمت میں حاضر ہے ۔۔
ات دی ہے ۔۔