بے فکری

ایک دن ایک بادشاہ دربار لگائے بیٹھا تھا کہ ایک ہاتھی کے بے قابو ہوکر چھوٹ جانے سے ’’ہٹو بچو‘‘ کا غل ہونے لگا۔ بادشاہ نے کھڑکی کی طرف منہ کیا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک نوجوان نے دوڑتے ہوئے ہاتھی کی دُم پکڑ کر اسے فوراً روک لیا ہے۔ بادشاہ نے وزیر کو اس کی شہ زوری کا تماشا دکھاکر پوچھا کہ کچھ سوچو تو سہی، اس میں اتنا زور کہاں سے آگیا۔
وزیر نے عرض کیا کہ جہاں پناہ! یہ صرف بے فکری کا زور ہے۔ بادشاہ کو وزیر کی اس بات پر تعجب ہوا کہ بے فکری سے اتنی قوت کیونکر آگئی۔ وزیر نے فوراً شہ زور جوان کو دربار میں بلواکر کہا کہ جہاں پناہ تمہاری شہ زوری دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ آج سے ایک روپیہ روزانہ تمہیں تنخواہ ملا کرے گی اور کام صرف یہ ہے کہ شہر کے باہر فلاں خانقاہ پر ٹھیک شام کے وقت چراغ جلا آیا کرو لیکن یاد رہے کہ اگر ایک دن بھی وقت سے آگے پیچھے پہنچوگے تو پھانسی دے دی جائے گی۔ نوجوان سن کر آداب بجا لایا اور ہدایات کے مطابق ہر روز خانقاہ پر چراغ جلانے لگا مگر تھوڑے دنوں کے بعد جب ایک بیل چھوٹ گیا اور نوجوان نے اس کی بھی دُم پکڑنی چاہی تو بیل کو ٹھہرانے کی جگہ خود ہی دور تک گھسٹتا ہوا چلا گیا اور وہ دُم چھڑاکر چلا گیا۔بادشاہ نے دیکھ کر کہا کہ’’ واقعی بے فکری بُری چیز ہے‘‘۔