بے رحمی کا انجام

گرمیوں کی تپتی دوپہر کا وقت تھا تمام جانور اور پرندے شدید گرمی سے بے حال تھے اور پیاس محسوس کررہے تھے ، جبکہ اسی گرمی میں ایک مرغی اپنے چوزوں کے ساتھ درخت کی چھاوں میں آرام سے بیٹھی تھی ۔ بچے دانہ چگ رہے تھے ۔ ایک مٹی کے بڑے پیالے میں ٹھنڈا پانی رکھا ہوا تھا۔
مرغی کے دل میں غرور کے باعث خیال آیا کہ تمام پرندے تو گرمی سے بے تاب اور پیاسے ہیں جبکہ میں ان سے بہتر ہوں کہ آرام سے بیٹھی ہوں اور مجھے کوئی فکر نہیں ہے ۔ ابھی وہ یہ باتیں سوچ رہی تھی کہ ایک چڑیا کہیں سے بھوکی پیاسی آئی اور دانہ چگنے لگی ۔ مرغی نے دیکھا تو اس پر جھپٹ پڑی اور چونچ مار کر اسے زخمی کردیا ۔چڑیا نے پانی پینا چاہا تو مرغی نے اسے پانی نہ پینے دیا ۔ چڑیا نے مرغی سے کہا ۔ بڑی بی میں بھوکی اور پیاسی ہو ںمجھ پر رحم کرو ۔ مرغی نے غرور سے کہا ۔ مجھے تم سے اور تمہارے بچوں سے کوئی لینا دینا نہیں ۔ چلو اپنی راہ لو ۔ یہ دانہ میرا ہے اسے میرے بچے کھائیں گے تمہارے بچے بھوک سے مرتے ہیں تو مرنے دو ۔ اگر پانی پینا ہے تو کہیں اور سے جاکر پیو۔ چڑیا نے بہت التجا کی لیکن مرغی کے دل میں رحم نہیں آیا ۔ آخر تھک ہار کر چڑیا یہ کہتے ہوئے چلی گئی کہ اللہ تمہیں اس رویہ کی سزا ضرور دے گا۔مرغی چڑیا کی باتوں کی پروا نہ کریت ہوئے ایک درخت کے نیچے جاکر بیٹھ گئی ۔ اور آرام کرنے کیلئے اپنی آنکھیں بند کرلیں ۔ تھوڑی دیر بعد ایک چیل کا ادھر سے گذر ہوا اس نے مرغی کو یوں آرام کرتے دیکھا تو اسے بہت خوشی ہوئی۔ وہ بھوکی تو تھی اس نے جھپٹ کر ایک مرغی کا بچہ اپنے پنجوں میں دبا لیا ۔ اتنے میں مرغی کی آنکھ کھل گئی ۔ وہ جلدی سے چیل پر جھپٹی لیکن چیل بڑی چالاکی سے اڑ گئی اپنے بچے کو یوں بے رحم ہاتھوں میں جاتا دیکھ کر مرغی کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور اسے چڑیا کے ساتھ کی گئی زیادتی یاد آگئی ۔ اس نے اپنے آپ سے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ کبھی بھی کسی کے ساتھ بے رحمی کا برتاو نہیں کرے گی ۔