بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق

قاری محمد مبشر احمد رضوی القادری

غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسین ابتدا ہے اسماعیل
انسان کو دنیا میں دو چیزیں سب سے زیادہ عزیز و محبوب ہوتی ہیں، ایک جان اور دوسری اولاد۔ نمرود کی جلائی ہوئی آگ کے شعلے، جو سات دن تک اس طرح جلتے رہے کہ اس کے اوپر سے پرواز کرنے والے پرندے بھی جل کر خاکستر ہو جاتے تھے۔ یہ آگ قریہ کوثی میں دہکائی گئی تھی، جو شہر بابل سے متصل ہے اور اس کے شعلے اہل شام کو دِکھائی دیتے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو شیطان کے مشورہ کے مطابق منجنیق کے ذریعہ نار نمرود میں ڈالنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں، جب کہ آپ کی عمر شریف ابھی سولہ برس تھی۔ کفر خوش ہے کہ آج کے بعد ہمارے معبودوں کو بُرا بھلا کہنے والا کوئی نہ ہوگا اور ہماری مخالفت ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گی اور ادھر حضرت سیدنا جبرئیل علیہ السلام نے بحکم الہٰی ایک ریشمی قمیص جنت سے لاکر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو پہنادیا اور کہا: ’’اے اللہ کے پیارے خلیل! اگر کوئی حاجت ہو تو حکم کیجئے؟‘‘ تو آپ نے فرمایا: ’’اے جبرئیل! تم سے کوئی حاجت نہیں‘‘۔ پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا: ’’اے بزرگ و برتر نبی! کم از کم اللہ عزوجل کی بارگاہ میں اپنی التجا بیان فرمائیے‘‘۔ آپ نے فرمایا: ’’اس سے میں کیوں کہوں! کیا وہ سمیع و بصیر نہیں ہے؟‘‘۔ اسی واقعہ کے پس منظر میں علامہ اقبال نے کہا:
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لبِ بام ابھی

جیسے ہی حضرت ابراہیم علیہ السلام آگ میں ڈالے گئے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ذیشان صادر ہوا: ’’اے آگ! میرے ابراہیم پر تو ٹھنڈی اور سلامتی ہوجا‘‘۔ مختصر یہ کہ پیکر صبر و رضا حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنی جان کا امتحان دیا اور منزلِ امتحان میں ثابت قدم رَہ کر بارگاہِ خداوندی سے ’’خلیل اللہ‘‘ کا خطاب پایا اور اللہ عزوجل نے اپنے پیارے خلیل کے لئے آتشِ نمرود کو گل گلزار بنادیا۔ پھر جب آپ سے اولاد کی قربانی طلب کی گئی تو اس کے لئے بھی آپ راضی ہو گئے۔ عرب کی سرزمین پر بے آب و گیاہ پہاڑوں کا سلسلہ دُور دُور تک چلا گیا ہے، سبزہ کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ اللہ کے خلیل اپنے لخت جگر حضرت سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو، جو ابھی شیر خوار ہیں، ان کی والدہ حضرت سیدہ ہاجرہ علیہا السلام کے بشمول اس وادی میں چھوڑدیا۔ حضرت ہاجرہ نے عرض کیا: ’’اے میرے شوہر نامدار! یہ کس جرم کی سزا ہے؟‘‘۔ آپ نے کوئی جواب نہ دیا۔ دوبارہ حضرت ہاجرہ نے عرض کیا: ’’کیا یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے؟‘‘۔ آپ نے فرمایا: ’’ہاں!‘‘ تو حضرت ہاجرہ نے فرمایا ’’اب ہمیں کوئی غم نہیں ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں ضائع نہیں فرمائے گا‘‘۔ حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کی کہ ’’اے میرے رب! میں نے اپنی اولاد کو ایک ایسی وادی میں بسایا ہے، جس میں کھیتی نہیں ہوتی۔ تیرے حرمت والے گھر کے پاس، اس لئے کہ وہ نماز قائم کریں۔ تو لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کردے اور انھیں پھل کھانے کے لئے عطا فرما، تاکہ وہ احسان مانیں‘‘۔ ان دعائیہ کلمات کے بعد آپ حضرت ہاجرہ اور شہزادے حضرت اسماعیل علیہما السلام کو خدا کی حفاظت و ضمانت دے کر رخصت ہوئے۔ چوں کہ حضرت ہاجرہ کے ساتھ مختصر توشہ اور بہت کم مقدار میں پانی تھا، وہ بھی ختم ہو گیا۔ دور ابتلاء و آزمائش کا آغاز ہوا۔ ماں سے شیرخوار بچہ کی پیاس دیکھی نہ گئی۔ پانی کی تلاش میں اطراف کی پہاڑیوں پر آپ دوڑنے لگیں، لیکن مقصد پورا نہ ہوا۔ اسی جستجو میں صفا و مروہ کے درمیان سات چکر لگائیں اور ننھے اسماعیل علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ ایڑیاں رگڑ رہے ہیں اور اسی رگڑ سے پتھریلی زمین سے پانی نکل رہا ہے۔ حصول آب کی فکر میں بے چین حضرت ہاجرہ نے جب یہ منظر دیکھا تو خوشی کی انتہا نہ رہی۔ آپ نے فوراً اس چشمۂ آب کا احاطہ کیا اور کہا: ’’زم زم (اے نکلنے والے پانی ٹھہرجا)‘‘۔ یہ وہی آب زم زم ہے، جسے آج دنیا کے لاکھوں افراد تعظیماً پیتے ہیں۔ حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ’’اگر حضرت ہاجرہ اس پانی کو ’’زم زم‘‘ نہ کہتیں تو یہ پانی ساری کائنات کی ہر ضرورت پوری کرنے کے لئے کافی ہوتا‘‘۔ اللہ تعالیٰ کو حضرت ہاجرہ کا پانی کے لئے دوڑنے کی ادا اتنی پسند آئی کہ اس نے قیامت تک حج کی سعادتیں حاصل کرنے والے حاجی کے لئے صفا و مروہ پر دَوڑنا لازم قرار دے دیا۔

جب زم زم بہنے لگا تو دُور دُور سے پرندے اُڑکر آنے لگے۔ قبیلہ بنی جرہم کے قافلہ کا یہاں سے گزر ہوا تو دیکھا کہ ایک خاتون اپنے شیر خوار بچے کو گود میں لئے ہوئے بیٹھی ہے، حیران و ششدر رہ گئے۔ غیب سے آواز آئی: ’’اے لوگو! یہ ادب کی جگہ ہے، یہ عورت ایک پیغمبر کی بیوی ہے اور یہ شیرخوار اللہ کے نبی کا فرزند ارجمند ہے‘‘۔ وہ قافلہ حضرت سیدہ ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے اجازت لے کر وہیں مقیم ہو گیا۔ جب حضرت سیدنا اسماعیل علیہ السلام سن بلوغ کو پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے ان کے چہیتے بیٹے کی قربانی طلب کی۔ تین دن تک مسلسل خواب آتے رہے۔ چوں کہ نبی کا خواب وحی الہٰی ہوتا ہے، لہذا آپ نے یقین کرلیا کہ بیٹے کی قربانی خدا کو مطلب ہے۔ چنانچہ آپ نے حضرت سیدہ ہاجرہ سے کہا کہ میں اور میرا بیٹا دعوت الی اللہ پر جا رہے ہیں، آپ بچے کو تیار کردیں۔ بعد ازاں آپ نے چھری اور رسی لے کر جنگل کا رُخ کیا۔ خانۂ کعبہ سے کچھ دور منٰی کے میدان سے قریب شیطان نے آپ کو اس قربانی سے روکنے کی کوشش کی۔ سب سے پہلے وہ حضرت ہاجرہ کے پاس گیا اور کہا کہ ’’آپ کو علم ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے کو کہاں لے گئے؟‘‘۔ حضرت ہاجرہ نے کہا: ’’دعوت میں‘‘۔ شیطان نے کہا: ’’دعوت میں نہیں، بلکہ وہ ذبح کرنے کے لئے لے گئے ہیں‘‘۔ حضرت ہاجرہ نے کہا: ’’یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک باپ اپنے بیٹے کو اپنے ہاتھ سے ذبح کرے؟‘‘۔ شیطان نے کہا: ’’حضرت ابراہیم کا خیال ہے کہ انھیں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ میری راہ میں اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرو‘‘۔ حضرت ہاجرہ نے فرمایا: ’’اگر یہ میرے پروردگار کا حکم ہے تو میں کون ہوں جو اس قربانی کی راہ میں رُکاوٹ بنوں۔ اللہ تعالیٰ کے حکم پر تو ایک اسماعیل کیا ہزاروں اسماعیل ہوں تو میں ایک ایک کرکے سب کو اللہ کے نام پر قربان کرتی چلی جاؤں گی‘‘۔ جب شیطان یہاں سے مایوس ہو گیا تو پھر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو وَرغلایا، آپ کے قریب جاکر کہنے لگا: ’’تمھیں تمہارے والد ذبح کرنے کے لئے لے جا رہے ہیں‘‘۔ حضرت اسماعیل نے کہا: ’’کیوں؟‘‘۔ شیطان نے کہا: ’’وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں ایسا کرنے کا حکم دیا ہے‘‘۔ جواباً حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کہا: ’’اگر اللہ تعالیٰ میری جان کی قربانی قبول فرمالے تو میں یہی کہوں گا:
جان دی ، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
اس سے بڑھ کر ہمارے لئے اور کیا سعادت ہوسکتی ہے‘‘۔

شیطان نے ہر ممکن کوشش کی کسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام اس قربانی سے رُک جائیں، مگر اللہ کے خلیل کے عزم بالجزم کے سامنے وہ بے بس ہو گیا۔ ایک پہاڑ کے قریب جاکر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے شہزادہ حضرت اسماعیل علیہ السلام سے کہا: ’’اے بیٹے! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، بتا تیری مرضی کیا ہے؟‘‘۔ سعادت مند بیٹے نے جواب دیا: ’’ابا جان! آپ کو جو حکم ملا ہے، بلا خوف و خطر اسے پورا فرمائیے، انشاء اللہ تعالیٰ آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے‘‘۔
جب حضرات ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام راضی بہ رضائے الہٰی ہو گئے تو باپ نے بیٹے کو زمین پر جبین کے بل لٹادیا۔ چھری چلانے سے پہلے بیٹے نے کہا: ’’ابا جان! میری تین باتیں قبول فرمائیں۔ پہلی یہ کہ میرے ہاتھ پاؤں رسی سے باندھ دیں، تاکہ تڑپنے سے خون کا کوئی چھیٹا آپ کے لباس پر نہ پڑے۔ دوسری یہ کہ آپ اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لیجئے، کہیں ایسا نہ ہو کہ میری محبت کی وجہ سے آپ کا ہاتھ رُک جائے اور تیسری بات یہ ہے کہ میرا خون آلود کرتا میری والدہ کے پاس پہنچا دیجئے، تاکہ وہ اسے دیکھ کر اپنے دل کو تسلی دے لیا کریں گی‘‘۔ باپ نے بیٹے کے گلے پر چھری رکھ دی، تسلیم و رضا کا یہ منظر آج تک چشم فلک نے نہیں دیکھا ہوگا۔ مختصر یہ کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے گلے پر چھری چلنے سے پہلے حضرت جبرئیل علیہ السلام جنت سے ایک مینڈھا لے آئے اور اس کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ پر لٹا دیا۔ آواز آئی: ’’اے ابراہیم! تونے خواب کو سچا کردِکھایا، ہم نیکوں کو یونہی جزا دیتے ہیں۔ بے شک یہ صاف آزمائش ہے، ہم نے اس کا فدیہ ذبح عظیم کے ساتھ کردیا اور اس کے بعد والوں میں باقی رکھا‘‘۔ یعنی حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی قربانی اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی اور اسے یادگار کے طورپر قیامت تک کے لئے باقی رکھا اور اب ہر سال اس یاد کو تازہ کیا جاتا ہے۔٭